Maktaba Wahhabi

398 - 829
یعنی ہمارے نزدیک راجح مسلک یہی ہے۔ شیخنا محدث روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’بِسمِ اللّٰہِ‘‘ دونوں طرح درست ہے، خواہ سرّی پڑھے یا جَہری۔[1] اور سرّی پڑھنے کے دلائل سے ’’صحیح بخاری کی وہ حدیث ہے، جس کی طرف سائل نے اشارہ کیا ہے : (( عَن اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، وَ اَبَا بَکرٍ، وَ عُمَرَ کَانُوا یَفتَتِحُونَ الصَّلٰوۃَ بِاَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِینَ۔ )) [2] اور سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخنا سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’وَالصَّوَابُ تَقدِیمُ مَا دَلَّ عَلَیہِ حَدِیثُ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنہُ مِن شَرعِیَّۃِ الاِسرَارِ بِالبَسمَلَۃِ لِصِحَّتِہٖ، وَ صَرَاحَتِہٖ فِی ھٰذِہِ المَسئَلَۃِ ۔ وَ کَونُہٗ نَسِیَ ذٰلِکَ ، ثُمَّ ذَکَرَہٗ لَا یَقدَحُ فِی رِوَایَتِہٖ۔ کَمَا عُلِمَ ذٰلِکَ فِی الاَصُولِ، وَالمُصطَلَحِ. وَ تُحمَلُ رِوَایَۃُ مَن رَوَی الجَھرَ بِالبَسمَلَۃِ عَلٰی أَنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کَانَ یَجھَرُ بِھَا فِی بَعضِ الأَحیَانِ، لِیَعلَمَ مَن وَّرَائَ ہٗ أَنَّہٗ یَقرَأُھَا۔ وَ بِھٰذَا تَجتَمِعُ الأَحَادِیثُ. وَ قَد وَرَدَت أَحَادِیثُ صَحِیحَۃٌ تُؤَیِّدُ مَا دَلَّ عَلَیہِ حَدِیثُ أَنَسٍ مِن شَرعِیَّۃِ الاِسرَارِ بِالبَسمَلَۃِ ‘‘(وَاللّٰہُ أَعلَمُ) [3] یعنی مسئلہ ہذا میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کے صحیح اور مصرح ہونے کی بناء پر اس کو مقدم کرنا حق و صواب ہے اور ان کا اس کو بھول کر ،پھر یاد کر لینا، روایت میں قادحہ(معیوب) نہیں۔ جس طرح کہ علمِ اصول میں معروف ہے۔ لیکن جس سے جَہری ’’بسملہ‘‘ مروی ہے۔ وہ اس پر محمول ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات جَہری پڑھتے، تاکہ مقتدی کو اس کی قرأت کا علم ہو جائے۔ اس طرح تمام مختلف روایات میں توفیق اور تطبیق ہو جاتی ہے۔ نیز کچھ اور بھی صحیح احادیث حدیث انس رضی اللہ عنہ کی مؤید ہیں کہ بسملہ سرّی پڑھنی چاہیے۔ (واللّٰہ أعلم) واضح ہو کہ اصل قدر و قیمت دلائل کی ہے۔ پھر عمل اسی کے تابع ہونا چاہیے۔ جب کہ جملہ مستندات اسرار (معتبر روایاتِ سِرّی) کے مؤید( تائید میں) ہیں۔ لہٰذا میرے نزدیک بھی راجح بات ’’بِسمِ اللّٰہ‘‘ کو
Flag Counter