Maktaba Wahhabi

388 - 829
(( تَحرِیمُھَا التَّکبِیرُ، وَ تَحلِیلُھَا التَّسلِیمُ )) [1] یعنی ’’تکبیر سے نماز میں داخل ہوتا ہے اور سلام سے فارغ ہوتاہے۔‘‘ ان نصوص سے معلوم ہوا کہ زبانی ’’نیت‘‘ کا شرع میں کوئی وجود نہیں۔ بعد کے اَدوار میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ائمہ عظام تک کوئی فرد بھی اس بات کا قائل نظر نہیں آتا۔ بلکہ مولانا محمد عبد الحی حنفی ’’اکام النفائس‘‘ میں رقمطراز ہیں: ’’ زبانی ’’نیت‘‘ کا مسئلہ مجھ سے بہت دفعہ پوچھا گیا، کہ آیا یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے اصحاب سے ثابت ہے یا نہیں؟ اور آیا شرع میں اس کی کوئی اصل بھی ہے؟ تو میں نے یہی جواب دیا، کہ نہ تو شارع ہی سے ثابت ہوا، اور نہ ان کے صحابیوں میں سے کسی ایک سے ثابت ہوا۔‘‘ اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ زاد المعاد میں فرماتے ہیں :کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ’’ اللّٰہ اَکبر‘‘فرماتے اور اس سے پہلے کچھ نہ فرماتے اور نہ یوں کہتے، کہ میں فلاں نماز کی چار رکعت کعبہ کی طرف منہ کرکے امام یا مقتدی ہو کر پڑھتا ہوں اور نہ اداء یا قضاء یا فرض کا نام لیتے۔ جب کہ یہ سب بدعات ہیں۔ کسی نے آپ سے نقل نہیں کیا، نہ سندِ صحیح سے، اور نہ سندِ ضعیف سے ،نہ مسند سے ، اور نہ مرسل سے۔ بلکہ آپ کے صحابہ(رضی اللہ عنہم ) میں سے بھی کسی سے منقول نہیں ہوا۔اور تابعین میں سے بھی کبھی کسی نے اس کو مستحب نہیں کہا اور نہ چاروں اماموں نے‘‘ علامہ موصوف کی اس عبارت کو صاحبِ ’’مرقاۃ‘‘ علامہ ملا علی قاری حنفی نے بھی ’’مرقاۃ‘‘ میں نقل کیا ہے اور فقیہ ابن الہمام حنفی ’’ فتح القدیر‘‘، ’’شرح ہدایہ‘‘ میں فرماتے ہیں: کہ بعض حُفَاظِ حدیث نے کہا ہے، کہ رسول اﷲ صلي الله عليه وسلم سے نہ تو صحیح طریق سے ثابت ہے، اور نہ ضعیف سے، کہ آپ شروع نماز کے وقت کہتے ہوں، کہ میں فلاں نماز پڑھتا ہوں اور نہ تابعین میں سے کسی سے ثابت ہوا۔ بلکہ آپ سے تو یہی منقول ہے کہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ’’اللّٰہُ اَکبَرُ‘‘ فرماتے۔ لہٰذا یہ بدعت ہے۔ جملہ نقول سے مقصود صرف یہ ہے، کہ نماز شروع کرنے سے پہلے زبانی کلامی نیت کا شریعت میں کوئی وجود نہیں۔ بہرصورت اس سے احتراز ضروری ہے۔ حدیث میں ہے: (( مَن أَحدَثَ فِی أَمرِنَا ھٰذَا مَا لَیسَ مِنہُ فَھُوَ رَدٌّ )) [2] ’’جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘
Flag Counter