Maktaba Wahhabi

356 - 829
’’اور نصیحت کرتے رہو۔ نصیحت مومنوں کو نفع دیتی ہے۔‘‘ اس کے باوجود اگر وہ اپنی حرکاتِ شنیعہ(بُری حرکات) سے باز نہ آئے، تو دوسری مسجد کا رُخ اختیار کرلینا چاہیے۔ یاد رہے بعض لوگوں کی عادت ہے، کہ وہ بلا وجہ ہی قرأت میں ٹھہراؤ پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ بات درست نہیں۔ امام کے فرائض میں سے ہے کہ ’’من حیث المجموع‘‘ وہ اپنے کمزور، ناتواں اور حاجت مند مقتدیوں کا لحاظ رکھتے ہوئے درمیانی نماز پڑھائے۔ حدیث میں ہے: (( فَإِنَّ فِیھِمُ الضعِیفَ ، وَالکَبِیرَ ، وَذَا الحَاجَۃ )) [1] ’’مقتدیوں میں کمزور، بوڑھے اور حاجت مند بھی ہوتے ہیں۔‘‘ان کا خیال رکھا جائے۔‘‘ سوال: میں ایک ایسے علاقے میں رہائش پذیر ہوں ،جہاں کوئی بھی اہلحدیث مسجد نہیں ہے۔ گھر کے نزدیک دو مساجد ہیں ان میں سے ایک کا تعلق مکتب دیوبند سے ہے اوردوسری کا تبلیغی جماعت سے۔ آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ کیا میں ان مساجد میں ان کے اماموں کے پیچھے باجماعت نماز ادا کرسکتا ہوں کہ نہیں۔ جواب: تقلیدِ شخصی کو شرعی حکم سمجھنے والے کو مستقلاً امام نہیں بناناچاہیے، کیونکہ اس صورت میں یہ اہل بدعت سے شمار ہو سکتا ہے، اور اہلِ بدعت کی اقتداء کو مستقل طور پر اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ان کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا موقع آجائے تو نماز ہو جائے گی۔ صحیح بخاری کے’’ترجمۃ الباب‘‘میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے:’’ صَلِّ وَ عَلَیہِ بِدعَتُہٗ ‘‘ یعنی ’’تو بدعتی کی اقتداء میں نماز پڑھ لے۔ اس کی بدعت کا وبال اس کی جان پر ہے۔‘‘ یاد رہے کہ بدعت مُکَفِّرَۃ کفر تک لے جانے والی یا مُخرِج عَنِ المِلَّۃ (ملت سے نکال دینے والی)کسی امام میں پائی جائے تو اس کے پیچھے نماز قطعاً نہیں ہو گی۔ جیسے کوئی قرآن کو کلامِ الٰہی کے بجائے مخلوق سمجھتا ہے یا ذاتِ الٰہی کی صفات کو مخلوق پر قیاس کرتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا سائل کو چاہیے کہ حتی المقدور اپنی باجماعت ادائیگیٔ نماز کا علیحدہ بندوبست کرے۔ اس کے لیے کوئی بھی مناسب جگہ مقرر ہو سکتی ہے، چاہے گھر میں ہی کیوں نہ ہو۔ حدیث میں ہے:
Flag Counter