Maktaba Wahhabi

351 - 829
اصرار کرنا کہ فرض پڑھنے والے ہمارے ساتھ شریک ہوں، درست معلوم نہیں ہوتا۔ جواب: نمازِ عشاء کی جماعت ثانیہ (دوسری جماعت) والے بایں صورت نماز کو جاری رکھیں اور نمازِ تراویح پڑھنے والے اپنی جگہ مصروف رہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن آوازوں کے ٹکراؤ سے احتراز ہونا چاہیے، کیونکہ اس سے خشوع وخضوع میں فرق آتا ہے ،جو نماز کا مغز ہے اور اگر ایسی صورت نہ ہو، تو پھر فرضی نماز والے کو امام تراویح کی اقتداء میں نماز پڑھنی چاہیے۔ قصہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اس امر کی واضح دلیل ہے، جو صحیح احادیث میں موجود ہے، وہ مسجد نبوی میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں عشاء کی نماز ادا کرتے اور پھر اپنی قوم کی امامت کراتے تھے۔ بالفرض اگر کوئی عمداً اس صورت کو اختیار نہ کرتے ہوئے امام تراویح سے علیحدہ جماعت کرالے یا انفرادی طور پر نماز پڑھ لے تو نمازان شاء اﷲ درست ہو گی۔ قطعی ممانعت کا تصور صرف اس کے لیے ہے جس نے وہی فرض نماز پڑھنی ہو جسے امام پڑھا رہا ہے۔ نوافل یا تراویح کی علیحدہ علیحدہ کئی جماعتوں کی شکل ایک امام پر جمعِ عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے موجود تھی۔ جس کا کسی نے انکار نہیں کیا۔ آج کے دور میں بھی ایسی صورتیں ایامِ رمضان میں حرمین شریفین میں پیش آتی رہتی ہیں۔ سوال: ہمارے مولوی صاحب کہتے ہیں کہ جو آدمی پانچوں نمازیں باجماعت ادا کرتا ہو، وہ کبھی کسی مجبوری کی وجہ سے جماعت سے رہ جائے تو دوسری جماعت کروا سکتا ہے ورنہ دوسری جماعت ہر دیر سے آنے والا نہیں کروا سکتا۔ کیا یہ موقف درست ہے اور دوسری جماعت کروانے کے لیے دوبارہ تکبیر کہنی چاہیے یا نہیں؟ جواب: دوسری جماعت کروانا جائز ہے۔ صحیح بخاری کے’’ترجمۃ الباب‘‘میں ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ ایک مسجد کی طرف آئے۔ وہاں جماعت ہو چکی تھی۔ اذان اور اقامت کہہ کر جماعت کرائی۔((بُ فَضلِ صَلٰوۃِ الجَمَاعَۃِ)) اس سے معلوم ہوا کہ دوسری جماعت کے لیے اقامت بھی ہے۔ واضح ہو مومن کی شان ہے، کہ وہ بلاوجہ جماعت سے لیٹ نہیں ہوتا۔ ممکن ہے مولوی صاحب کا مقصود ترغیب و ترہیب ہو۔ ورنہ ہر دو صورت میں جواز میں کوئی کلام نہیں ملاحظہ ہو! ترمذی: ((بَابُ مَا جَائَ فِی الجَمَاعَۃِ فِی مَسجِدٍ قَد صُلَّیَ فِیہِ مَرَّۃً)) سوال: اصل جماعت ہو گئی ہے۔ لیٹ آنے والوں کو دوسری جماعت کروانی چاہیے۔ یا اپنی اپنی پڑھ لیں؟ پہلی جماعت اور دوسری جماعت کے اجر میں کیا فرق ہو گا؟ اس طرح تیسری اور چوتھی کب تک اور جماعتیں کروائی جا سکتی ہیں؟ جواب: پہلی جماعت کے فوت ہونے کی صورت میں دوسری کا جواز احادیث سے ثابت ہے۔ ملاحظہ ہو!
Flag Counter