Maktaba Wahhabi

330 - 829
سے پہلے کھڑے نہیں ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں حدیث کا مفہوم سمجھنے میں غالباً انھیں مغالطہ ہوا۔ سو میں نے ان کے موقف کو محل نظر قرار دیا۔ جلدی ہی امام صاحب (حافظ محمد یحییٰ عزیز صاحب) امامت کے لیے بڑھے اور میں نے مصلے تک پہنچنے سے پہلے ہی انھیں روک کر یہ مسئلہ دریافت کیا تو انھوں نے بھی مختصراً بتا دیا کہ امام کے آنے سے پہلے کھڑے نہیں ہونا چاہیے۔ خیر نماز کے بعد میں نے صاحب مذکور( جس نے مجھے کھڑے ہونے سے منع کیا تھا) سے وضاحت طلب کی کہ کیا امام کے مصلے پر آجانے سے پہلے کھڑے نہیں ہونا چاہیے؟ تو انھوں نے اثبات میں جواب دیا۔ حالانکہ وہ خود بھی امام کے مصلے پر پہنچنے سے پہلے کھڑے ہو چکے تھے۔ جس کی نشاندہی پر انھوں نے کہا کہ ان سے غلطی ہو گئی ۔ ظاہر ہے وہ اسی مفہوم کے قائل ہیں کہ امام کے مصلے پر پہنچ جانے سے پہلے کھڑے ہونا منع ہے میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ یہاں اکثر علماء کرام ابھی کھڑے ہیں تو انھوں نے کہا کہ یہ تو کسی اور کام کی وجہ سے کھڑے ہیں حالانکہ خیال ہے کہ وہ لوگ باہمی دلچسپی کی باتوں میں مصروف ہوں گے۔ اس محدود سے وقت میں معاملہ کچھ عجیب سا لگا کہ کھڑے کھڑے ایک دوسرے سے باتیں کر لیں تو جائز اور اگر نماز کے انتظار میں کھڑے ہوں تو ناجائز۔ حالانکہ یہ کھڑے ہونا صف بندی میں شمار نہیں ہوتا۔ اب اس سلسلے میں جو احادیث مجھے معلوم ہو سکیں وہ درج ذیل ہیں: 1۔ راوی ابو قتادہ رضی اللہ عنہ : رسول اﷲ صلي الله عليه وسلم نے فرمایا: کہ جب نماز کی تکبیر ہو تو جب تک مجھ کو نہ دیکھ لو کھڑے نہ ہو۔[1] 2۔ راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور نماز کی تکبیر ہو گئی تھی۔ صفیں برابر ہو چکی تھیں۔ جب آپ مصلے پر کھڑے ہوئے۔ ہم انتظار میں تھے کہ اب تکبیر کہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اور فرمایا :تم اسی جگہ کھڑے رہو۔ ہم اسی حال میں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سَر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ آپ نے غسل کیا تھا۔[2] 3۔ راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ : نماز کی تکبیر ہوئی لوگوں نے صفیں برابر کر لیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے، آگے بڑھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنبی تھے۔ پھر فرمایا یہیں ٹھہرے رہو اور لوٹ گئے ، غسل کیا پھر باہر نکلے اور سَر سے
Flag Counter