Maktaba Wahhabi

301 - 829
ہے۔ لہٰذا دونوں صورتوں میں اجر و ثواب برابر ہے، تفریق کی کوئی وجہ نہیں۔ سوال: ننگے سَر نماز رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی ہے یا نہیں ؟جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ننگے سَر نماز پڑھی ہے۔ جواب: ’’صحیحین‘‘ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بصورتِ ’’توشیح‘‘ ایک کپڑے میں نماز پڑھی۔ ’’توشیح‘‘ کی شکل یوں ہے: کپڑے کی بائیں طرف کو بائیں ہاتھ کے نیچے سے دائیں کندھے پرڈالنا، اور کپڑے کی دائیں طرف کو دائیں ہاتھ کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈالنا۔ اسی طرح عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں بصورتِ ’’توشیح‘‘ ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا۔(رواہ الجماعۃ ) زیرِ حدیث ہذا علامہ شوکانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: (( وَالحًدِیثُ یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الصَّلَاۃَ فِی الثَّوبِ الوَاحِدِ صَحِیحَۃٌ إِذَا تَوَشَّحَ بِہِ المُصَلِّی، أَو وَضَعَ طَرَفَہٗ عَلٰی عَاتِقِہٖ، أو خَالَفَ بَینَ طَرَفَیہِ )) [1] یعنی یہ حدیث اس بات پر دال ہے، کہ ایک کپڑے میں نماز درست ہے۔ ظاہر ہے جب ایک کپڑے میں نماز ہو گی توسَر لا محالہ (یعنی لازماً)ننگا ہوگا۔ مولوی احمد رضا خاں بریلوی نے احکامِ شریعت میں لکھا ہے، کہ ننگے سَر نماز پڑھنے میں خشوع و خضوع زیادہ ہے۔ سوال: کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ننگے سَر نماز ادا کرنا ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا ہونے کے باوجود ننگے سَر نماز پڑھی ہو تو براہِ کرم اس کی وضاحت کریں؟ جواب: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑا اوڑھ کر نماز پڑھی ہے، جس کی صورت یوں بیان ہوئی ہے، کہ کپڑے کی دونوں طرفیں مخالف طور سے کندھے پر ڈال لیں۔ یعنی اس کی دائیں طرف بائیں کندھے پر، اور بائیں طرف دائیں کندھے پر ڈال لی۔[2] اس سے صاف واضح ہے، کہ سَر پر کچھ نہ تھا۔ اگر کپڑے کی موجودگی میں ایسا فعل ناجائز ہوتا، تو آپ حکماً اس سے منع فرما دیتے۔ منع نہ کرنا مطلق جواز کی دلیل ہے۔ نیز ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تمہارا کوئی بھی ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے، کہ کندھے پر کچھ نہ ہو۔ (بلوغ المرام) [3]
Flag Counter