Maktaba Wahhabi

271 - 829
چنانچہ عبد اﷲبن عمر رضی اللہ عنہما کا عثمانی اذان کو بدعت کہنا اس معنی میں ہے۔ جس معنی میں ان کے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باجماعت تراویح کو’’نعمَتِ البِدعَۃُ ھٰذِہ ‘‘ کہا تھا۔ یہ بدعت کا لغوی معنی میں استعمال ہے۔ جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کو باجماعت صورت میں رواج دیا اور اسے اچھی بدعت کہا اسی طرح ان کے بیٹے عبد اﷲ نے اذانِ عثمانی کے رواج کو بدعت سے تعبیر کیا۔ حضرت عمراور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما دونوں خلیفہ راشد ہیں اور اسی حیثیت میں ان کا طرزِ عمل شرعی ہونے کی بناء پر قابلِ اطاعت ہے۔ باقی رہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کوفے میں طرزِ عمل کو کہ انھوں نے اذانِ عثمانی کو اختیار نہیں کیا۔ تویہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ کوئی بھی حضرت عثمان کی اذان کے وجوب کا قائل نہیں۔ لیکن اس سے عثمانی اذان کا غیر مشروع ہونا لازم نہیں آتا۔ ممکن ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دَورِ خلافت میں کوفہ کے علاوہ دیگر علاقوں میں عثمانی اذان کو باقی رکھ کر خود اس پر عمل صرف کوفہ میں اس لیے چھوڑ دیا ہو کہ کوفے والوں کا رجحان بنو اُمیہ کی مخالفت کا تھا۔ ظاہر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بنوامیہ سے تھے اور انہی کی ہمدردی کے دعویٰ سے شام وغیرہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ والوں کے خلاف برسرپیکار تھے۔ ایسی مصلحتیں مباحات میں اختیار کرنا کسی کے نزدیک معیوب نہیں۔ بہرصورت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وسیع مملکت میں صرف کوفہ میں ایک اذان پر اکتفا عثمانی اذان کی غیر مشروعیت کی دلیل نہیں بن سکتا۔ بالخصوص جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس اذان کی زبانی مخالفت نہ حضرت عثمان کے دَور میں ثابت ہے اور نہ اس کے بعد۔ یہی توجیہ اگر سامنے رہے تو بعض سلف مثلاً : حسن بصری، زہری اور امام شافعی رحمہما اللہ وغیرہ کی آراء کی وجہ بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ یہ تینوں بھی اہلِ بیت کے ہمدردوں میں شمار کیے جاتے ہیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی عثمانی اذان کو غیرشرعی نہیں کہا۔ ہماری مذکورہ بالا گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ عثمانی اذان کے رواج کے خلاف تگ و دَو کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایک جائز امر جس کے جواز پر اجماعِ امت موجود ہو۔ احیائِ سنت کی سرگرمیوں کے درمیان رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ اگرچہ بعض مخصوص علاقوں میں جب بعض لوگوں نے اپنی بدعات کو سہارا دینے کے لیے اذانِ عثمانی سے استدلال کی کوشش کی، تو بعض اہلِ علم نے اس مصلحت سے اذانِ عثمانی کو چھوڑ کر جمعہ کی ایک اذان پر اکتفا کرنے کو ترجیح بھی دی۔ برّصغیر پاک و ہند کے بعض علماء اور مصر و شام کے شیخ احمد محمد شاکر اور شیخ ناصرالدین البانی رحمہما اللہ وغیرہ کی توضیحات سے بھی یہی مقصود ہے۔ (واللّٰہ اعلم بالصواب)
Flag Counter