Maktaba Wahhabi

256 - 829
وَصَاحِبَیہِ أَبِی بَکرٍ، وَ عُمَرَ لِعَدَمِ الغَرَضِ الَّذِی أَحدِثَ الأذَانُ الثَّانِی مِن أَجلِہٖ۔ وَمَن لَّم یَقتَصِر عَلٰی أَذَانٍ وَاحِدٍ، فَقَد خَالَفَ سَیِّدُنَا عُثمَانَ فَضلًا عَن غَیرِہٖ۔ وَ ھٰذَا مَعلُومٌ لِمَنِ اطَّلَعَ عَلٰی مَا ھُوَ مُقَرَّرٌ فِی کُتُبِ السُّنَّۃِ)) [1] یعنی جس غرض کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس اذان کی داغ بیل ڈالی تھی وہ غرض اب ہمارے زمانے میں ختم ہو چکی ہے۔ لہٰذا ہماری رائے میں مسجد سے دُور اذان کی ضرورت نہیں۔ اس لیے اب اس طرح جمعہ کے لیے ایک ہی اذان پر اکتفا کرنا چاہیے، جس طرح رسول اﷲ صلي الله عليه وسلم ،حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے عہدِ مبارک میں ایک ہی اذان کہی جاتی تھی، کیونکہ اب پہلی اذان کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ بناء بریں اب جو شخص ایک اذان پر اکتفا نہیں کرتا۔ وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم حضرات شیخین کی مخالفت کے ساتھ ساتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بھی خلاف کر رہا ہے۔ نیز لکھتے ہیں: ((وَ عَلٰی فَرضٍ، أَنَّہٗ وُجِدَ الغَرَضُ الَّذِی أُحدِثَ الأَذَانُ الثَّانِی مِن أَجلِہٖ، زَمَنَ سَیِّدِنَا عُثمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُطلَبُ أَن یَقتَصِرَ عَلیٰ أَذَانٍ وَاحِدٍ۔ کَمَا صَرَّحَ بِذَالِکَ الشَّافِعِیُّ فِی ((الاُمِّ)) [2] ’’بالفرض یہ مان لیا جائے کہ جس غرض کے پیشِ نظر حضرت عثمان کے عہد میں یہ اذان شروع کی گئی تھی وہ غرض اب بھی موجود ہے تو پھر بھی اتباعِ سنت کے تقاضے کے مطابق ایک ہی اذان پر اکتفاء کرنا چاہیے۔ جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’ الاُمّ‘‘ (ج:۱؍۱۷۳) میں تصریح فرمائی ہے۔‘‘ مزید لکھتے ہیں اور وضاحت سے لکھتے ہیں : ((َمَا یَفعَلُہُ) النَّاسُ قَبلَ دُخُولِ الوَقتِ مِمَّا یُسَمُّونَہٗ بِالأَولٰی وَالثَّانِیَۃِ۔ ( لَا أَصلَ لَہٗ) لِأَنَّہٗ لَم یَفعَلہُ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، وَ لَا أَمَرَ بِہٖ ، وَ لَا فَعَلَہٗ أَحَدٌ مِّن أَصحَابِہٖ، وَ لَا مِنَ السَّلَفِ، بَل ھُوَ مُحدَثٌ أَحدَثَہٗ بَعضُ الأُمَرَائِِ کَمَا ذَکَرَہٗ ابن الحَاجّ، فَیَتَعَیَّنُ تَرکُہٗ لِأَنَّ تَرکَہٗ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إِیَّاہُ مَعَ وُجُودِ المُقتَضٰی۔ وَ ھُوَ تَشرِیعُ الأَحکَامِ فِی حَیَاتِہٖ۔ وَاستِمرَارُہٗ عَلٰی ذٰلِکَ حَتّٰی فَارَقَ الدُّنیَا یَدُلُّ عَلٰی عَدَمِ مَشرُوعِیَّتِہٖ۔ وَ کَذَلِکَ
Flag Counter