Maktaba Wahhabi

239 - 829
بہر صورت جب بات واضح ہو گئی کہ پہلی اذان سے مقصود تہجد کا وقت ختم ہونے کی اطلاع اور سوئے ہوئے لوگوں کو بیدار کرنا ہے، تو اس کا تقاضا ہے کہ جہاں دو اذانیں ہوں وہاں ((الصَّلوٰۃُ خَیرٌ مِّنَ النَّوم))پہلی اذان میں کہا جائے۔ اس سلسلے میں چند ایک احادیث بطورِ حوالہ ملاحظہ فرمائیں!نسائی میں ہے: ((عَن أَبِی مَحذُورَۃَ قَالَ … قَالَ … حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ۔ الصَّلٰوۃُ خَیرٌ مِّنَ النَّومِ ۔ الصلوۃ خیر من النوم فی الأولٰی من الصبح )) [1] حاشیہ نسائی میں ہے: ((فِی الأولیٰ من الصبح: أی فی المُنَادَاۃِ الأَُولٰی۔ و فی نسخۃٍ : فی الأوَّل: أی فی النداء الأوّل ۔ والمراد : الأذان دون الإقامۃ ))واللّٰہ تعالٰی أعلم۔ یعنی ابو محذورہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اذان سکھائی جس طرح کہ تم آج کل دیتے ہو، پھر اذان کے کلمات کہتے ہوئے کہا: ’’الصَّلٰوۃُ خَیرٌ مِّنَ النَّوم ‘‘صبح کی پہلی اذان میں ہے۔ نیز نسائی میں ہے: ((عَن أَبِی مَحذُورَۃَ ، قَالَ : کُنتُ اُؤَذِّنُ لِرَسُولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، وَ کُنتُ اَقُولُ فِی أَذَانِ الفَجرِ الاَوَّلِ : حَیَّ عَلَی الفَلَاح۔ اَلصَّلٰوۃُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ …)) [2] یعنی ابو محذورہ رضی اللہ عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اذان کہتے تھے، اور پہلی اذانِ فجر میں ’’الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ کہا کرتے تھے۔ ’’تلخیص الحبیر‘‘ میں ہے: ((وَصَحَّحَہُ ابنُ حَزمٍ )) یعنی ابو جعفر والی حدیث کو ابن حزم رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔’’دارقطنی‘‘ میں ہے:((الصَّلٰوۃُ خَیرٌ مِّنَ النَّومِ فِی الاُولٰی مِنَ الصُّبحِ)) [3] نیز ’’دارقطنی‘‘ میں ہے: ((فَإِذَا اَذَّنتَ بِالأُولٰی مِنَ الصُّبحِ فَقُل اَلصَّلٰوۃُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ مَرَّتَینِ )) [4] سنن أبوداؤد میں ہے: ((عَن أَبِی مَحذُورَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نَحو ھٰذَا الخَبر۔ وَ فِیہِ ’ اَلصَّلٰوۃُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ۔
Flag Counter