Maktaba Wahhabi

237 - 829
کے فرمان میں حسبِ ذیل ہے۔فرمایا: ((فَاِنَّہٗ یُؤَذِّنُ اَو یُنَادِی بِلَیلٍ لِیُرجِعَ قَائِمَکُم وَلِیُنَبِّہَ نَائِمَکُم))[1] ’’بلال رضی اللہ عنہ رات کے وقت اذان دیتا ہے تاکہ قیام کرنے والے(نماز تہجد پڑھنے والے) کو لوٹائے اور سوئے ہوئے کو بیدار کردے۔‘‘ علامہ صنعانی رحمہ اللہ ’’سبل السلام‘‘ میں فرماتے ہیں: ((وَ فِیہِ شَرعِیَّۃُ الاَذَانِ قَبلَ الفَجرِ ، لَا لِمَا شُرِعَ الاَذَانُ، فَإِنَّ الاَذَانَ، کَمَا سَلَفَ لِلاِعلَامِ لِدُخُولِ الوَقتِ ، وَ لِدُعَائِ السَّامِعِینَ بِحُضُورِ الصَّلٰوۃِ۔ وَ ھٰذَا الاَذَانُ الَّذِی قَبلَ الفَجرِ۔ قَد أَخبَرَ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بِوَجہِ شَرعِیَّتِہٖ بِقَولِہٖ: لِیُرجِعَ قَائِمَکُم ، وَ یُوقِظَ نَائِمَکُم۔ (رواہ الجماعۃ اِلّا الترمذی) وَ القَائِمُ : الَّذِی یُصَلِّی صَلَاۃَ اللَّیلِ ۔ وَ رُجُوعُہٗ : عَودُہٗ إِلٰی نَومِہٖ ، أَو قُعُودُہٗ عَن صَلٰوتِہٖ إِذَا سَمِعَ الأَذَانَ۔ فَلَیسَ لِلاِعلَامِ بِدُخُولِ الوَقتِ ، وَ لَا بِحُضُورِ الصَّلَاۃِ)) [2] یعنی ’’حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما میں فجر سے پہلے اذان کہنے کا ثبوت ہے، مگر یہ اذان اس لیے نہیں جو اس کی اصل غرض ہے۔ کیونکہ اصل مقصد اذان سے نماز کے وقت کا اعلان اور سامعین کو نماز میں شرکت کی دعوت دینا ہے اور فجر سے قبل جو اذان دی جاتی ہے، اس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اطلاع دی ہے، کہ یہ سوئے ہوئے کو جگانے، اور قیام کرنے والے کو لوٹانے کی خاطر ہے۔ اس کو ترمذی رحمہ اللہ کے سوا باقی جماعت نے روایت کیا ہے۔قائم سے مراد: جو رات کو نماز پڑھتا ہے۔ اس کو لوٹانے سے مراد یہ ہے، کہ وہ سو جائے یا نماز سے فارغ ہو کر بیٹھ جائے، جب کہ اذان سنے۔ پس یہ اذان نہ وقتِ نماز کی اطلاع کے لیے ہے اور نہ نماز میں حاضری کی خاطر ہے۔‘‘ نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ اگر کہا جائے کہ شرعی اذان کی تعریف جو پہلے گزر چکی ہے، وہ یہ ہے کہ مخصوص الفاظ سے نماز کے ٹائم کی اطلاع کرنا، اور قبل از وقت اذان دینے میں تو وقت کی اطلاع نہیں۔ تو اس کا جواب
Flag Counter