Maktaba Wahhabi

208 - 829
میں ایک دفعہ اپنی سواری کو منیٰ میں چرنے کے لیے چھوڑ کر خود جماعت میں شریک ہو گیا تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے اور دیگر روایات سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے، کہ بچوں کا وضوء، جماعت میں شرکت، عیدین، جنائز اور صفوں میں موجودگی سب ثابت شدہ امور ہیں، جن میں کوئی کلام نہیں ہو سکتا۔ [1] مزید آنکہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے لیٹ ہو گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((نَامَ النِّسَائُ وَالصِّبیَانُ)) ’’یعنی عورتیں اور بچے سو گئے۔‘‘[2] اس کی تشریح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:((أَیِ الحَاضِرُونَ فِی المَسجِدِ))(فتح الباری ۲؍۴۸)یعنی وہ جو مسجد میں موجود تھے اور حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کی مسجد میں آمد و رفت کی متعدد احادیث میں مصرح (واضح) ہے۔ ملاحظہ ہو! ’’مسند احمد‘‘وغیرہ۔ ایک اور صحیح روایت میں فرمانِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ میں بچے کا رونا سن کر نماز ہلکی کردیتا ہوں کہ کہیں یہ امر بچے کی والدہ پر گراں نہ گزرے۔ اسی طرح حدیث: ((مُرُوا اَولَادَکُم بِالصَّلٰوۃِ اِذَا بَلَغُوا سَبعًا)) [3]سے بھی مسجد میں بچوں کی آمد کا جواز مترشح ہے۔ دوسری طرف محدثین کرام نے چار، پانچ سال کے بچہ کا سماعِ حدیث بھی قابلِ اعتبار سمجھا ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اسے عام مجالس میں آنے کی اجازت ہو، جن میں مسجد بھی شامل ہے۔ حدیث میں وارد ہے: ((اِنَّمَا بُنِیَتِ المَسَاجِدُ لِمَا بُنِیَت لَہٗ)) [4] یعنی مسجدیں جس کام کے لیے بنائی گئیں ہیں، وہی کام ان میں ہونا چاہیے۔ زیرِ حدیث امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((مَعنَاہُ لِذِکرِ اللّٰہِ ، وَالصَّلٰوۃِ، وَالعِلمِ، وَالمَذَاکَرَۃِ فِی الخَیرِ وَ نَحوِھَا )) یعنی اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مساجد اﷲ کی یاد، نماز ، تعلیم و تعلُّم اور امورِ خیر کے بارہ میں گفتگو کے لیے بناء ئی گئی ہیں۔‘‘ لہٰذا عام حالات میں کسی کو حق نہیں کہ بچوں کو مسجد میں آنے سے روکے۔ البتہ بچے اگر شریر قسم کے ہوں، جن
Flag Counter