Maktaba Wahhabi

168 - 829
سے نماز قطع (ختم) نہیں ہوتی۔ فقہاء و محدثینِ عظام نے اس کو نواقضِ وضومیں شمار نہیں کیا۔ اس بارے میں وارد مشارٌالیہ حدیث ضعیف ہے۔ حافظ منذری فرماتے ہیں: (( فِی إِسنَادِہِ أَبُو جَعفَرٍ، وَ ھُوَ رَجُلٌ مِن أَھلِ المَدِینَۃِ لَا یُعرَفُ اسمُہُ ۔ )) [1] یعنی ’’اس حدیث کی سند میں اہل مدینہ کا ایک آدمی ہے جس کا نام غیر معروف ہے۔‘‘ اور علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وَ فِی إِسنَادِہِ أَبُو جَعفَرٍ، وَ ھُوَ رَجُلٌ مِن أَھلِ المَدِینَۃِ لَا یُعرَفُ اسمُہُ)) [2] اور علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔اس میں راوی ابو جعفر انصاری ہے۔اس سے بیان کرنے والا یحییٰ بن ابی کثیر ہے اور ابو جعفر انصاری مدنی مؤذن ہے اور وہ مجہول ہے، جس طرح کہ ابن قطان نے کہا ہے اور ’’تقریب‘‘ میں ہے۔ :’’اس کی حدیث کمزور ہے۔‘‘ علامہ موصوف فرماتے ہیں:میں کہتا ہوں: پس جس نے حدیث ہذا کو صحیح قرار دیا ہے اسے وہم ہوا ہے۔ معلوم نہیں۔ علامہ موصوف نے ’’لین الحدیث‘‘ کی نسبت تقریب کی طرف کیسے کردی جب کہ اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ لفظ ’’مقبول‘‘ ہے جس سے حافظ صاحب کی مرادیہ ہوتی ہے کہ یہ راوی متابعت کی صورت میں مقبول ہے۔( ملاحظہ ہو :مقدمۃ التقریب )جبکہ محلِ بحث مقام پر متابعت مفقود ہے لہٰذا ابو جعفر راوی ضعیف ٹھہرا۔ اس نظر یہ کے برعکس حدیث ہذا کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( رَوَاہُ أَبُودَاؤدَ بِاِسنَادٍ صَحِیحٍ عَلٰی شَرطِ مُسلِمٍ )) [3] یعنی ’’اس حدیث کو ابوداود نے بسند صحیح ذکر کیا ہے جو مسلم کی شرط پر ہے۔‘‘ صاحبِ مرعاۃنے بھی اس عبارت کو نقل کیا ہے، جس کی بناء پر مصنف کتاب صلوٰۃ المسلمین نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ۔لیکن امام نووی رحمہ اللہ کا یہ دعویٰ بلا استناد ہے، جو قابلِ اعتماد نہیں ۔جب کہ ابو جعفر راوی کی حقیقت منکشف ہو چکی ہے جس پر ا س حدیث کا دارو مدار ہے۔ اسبال سے مقصود یہاں یہ ہے کہ ٹخنے ڈھکے ہوں ۔مسئلہ ہذا کے بارے میں میرا ایک تفصیلی فتویٰ بھی
Flag Counter