Maktaba Wahhabi

138 - 829
اس کی قرآن و حدیث سے تفصیلی وضاحت فرمادیں۔ جواب: احادیث سے جواز ملتاہے۔ سوال: وضوکے بعد کی دعاء یعنی ((اَللّٰھُمَّ اجعَلنِی مِنَ التَّوَّابِینَ وَ اجعَلنِی مِنَ المُتَطَھِّرِینَ)) [1] اس حدیث کی اسنادی حیثیت درکار ہے۔ جواب: سوال میں مذکور دعاء جامع ترمذی میں وارد ہے۔ اس کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( فِی إِسنَادِہٖ إِضطِرَابٌ، وَ لَا یَصِحُّ فِیہِ شَیئٌ کَبِیرٌ)) جرح ہذا کو نقل کرنے کے بعد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: (( لٰکِن رِوَایَۃَ مُسلِمٍ سَالِمَۃٌ مِن ھٰذَا الاِعتِرَاضِ۔ وَالزِّیَادَۃُ الَّتِی عِندَہٗ رَوَاھَا البَزَّارُ، وَالطَّبرَانِیُّ فِی ((الأَوسَطِ‘ مِن طَریقِ ثَوبَانَ )) ’’لیکن صحیح مسلم کی روایت اضطراب کے اعتراض سے سلامت ہے اور وہ زیادتی جو ترمذی میں ہے اس کو ’’بزار اور طبرانی نے ’’أوسط‘‘ میں ثوبان کے طریق سے بیان کیا ہے۔‘‘ جس کے الفاظ یوں ہیں: ((اَشھَدُ أَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، واَشھَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَّسُولُ اللّٰہِ۔ اللّٰھُمَّ اجعَلنِی مِنَ التَّوَّابِینَ وَ اجعَلنِی مِنَ المُتَطَھِّرِینَ)) [2] بظاہر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ترمذی رحمہ اللہ کی جرح کو تسلیم کیا ہے اور دیگر طُرُق کی بناء پر اس کو قابلِ عمل سمجھا ہے، لیکن محقق العصر شیخنا ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے امام ترمذی کی جرح کو ہی ہدفِ تنقید بنایا ہے۔وہ فرماتے ہیں: (( وَ أَعلَّہٗ التِرمذِیُّ بِالاِضطِرَابِ، وَ لَیسَ بِشَیئٍ، فَإِنَّہٗ إِضطِرَابٌ مَرجُوحٌ)) [3] یعنی امام ترمذی نے اس حدیث کو اضطراب کی بناء پر معلول (علت والی) قرار دیا ہے، لیکن یہ قابلِ توجہ شئی نہیں کیونکہ یہ اضطراب مرجوح ہے۔ پھر دیگر شواہد کی بناء پر ’’الإرواء‘‘ میں اس کو بِلا تردُّد قابلِ عمل تسلیم کیا گیا ہے۔ اور صحیح سنن ترمذی میں علامہ البانی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ رقم (۴۸۔۵۵) یہی بات راجح ہے۔ ان وجوہ کی بناء پر جن کی علامہ
Flag Counter