الناس نے یحییٰ بن معین سے ’’عیون الاثر‘‘ میں یہ بیان کیا ہے اور اسے ’’فتح المغیث‘‘ میں ابوبکر بن العربی سے منسوب کیا ہے۔ علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ نے ’’قواعد التحدیث فی مصطلح الحدیث‘‘ میں (ص۹۴ پر) فرمایا:
’’اور ظاہر ہے کہ بخاری ومسلم کا موقف بھی یہی ہے، اس پر بخاری کی اپنی صحیح میں شرط اس پر دلالت کرتی ہے اور امام مسلم رحمہ اللہ کی ان ضعیف راویوں پر طعن وتشنیع، جن کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا، اور ابن حزم رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے، جیسا کہ انہوں ’’الملل والنحل‘‘ میں فرمایا۔ اس میں ان کے کلام کا مطالعہ فرمائیں اور بحث ’’المحلی‘‘ میں بھی ہے، اور یہاں ان شروط کا اضافہ کیا جاتا ہے جنھیں حافظ ابن حجر نے ’’ تبیین العجب فیما ورد فی فضل رجب‘‘ میں ذکر کیا ہے۔‘‘
میرا عقیدہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں وہ علماء حق پر ہیں جو فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل نہیں کرتے، اور وہ کچھ امور کی وجہ سے ہے:
(۱)… ضعیف حدیث بالاتفاق صرف ظن و گمان ہی کا فائدہ دیتی ہے، جبکہ ظن و گمان پر عمل کرنا جائز نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِِلَّا الظَّنَّ وَاِِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا﴾ (النجم:۲۸) ’’وہ محض گمان کی اتباع کرتے ہیں، بے شک حق کے مقابلے میں گمان بالکل کچھ بھی کام نہیں آتا۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے: ’’إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّہٗ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ۔‘‘ [1] ’’ظن و گمان سے بچو، کیونکہ وہ سب سے بڑی جھوٹی بات ہے۔‘‘
(۲)… نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے روایت کرنے سے اجتناب برتنے کا ہمیں حکم فرمایا مگر وہ جس کی صحت ہمیں آپ سے معلوم ہوجائے، آپ نے فرمایا: ’’مجھ سے حدیث بیان کرنے سے بچو مگر وہ جو تمہیں معلوم ہو۔‘‘ [2] اور یہ معلوم ہے کہ روایت حدیث تو صرف اس عمل کا ذریعہ ہے جس کے متعلق یہ ثابت ہے، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس روایت کے بیان کرنے سے ہمیں منع فرماتے ہیں جو آپ سے ثابت نہیں، تو پھر اس (ضعیف روایت) پر عمل کرنے کی ممانعت بدرجہ اولیٰ ہوگی، اور یہ بالکل واضح ہے۔ [3]
|