سے موافقت ہے، انہوں نے اس میں ’’سیدنا‘‘ کا ذکر نہیں کیا!
ہمارے شیخ البانی رحمہ اللہ نے کتاب ’’فضل الصلاۃ علی النبی صلي الله عليه وسلم ‘‘ (ص۵۶) میں یہ بیان کیا ہے:
حافظ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سیّدنا کا لفظ استعمال نہ کرنے کی مشروعیت کے بارے میں اپنے ایک فتوے میں اسے ذکر کیا، اور وہ ایک اہم فتوی ہے، انہوں نے اس میں سلف کے طریقہ اتباع کو اختیار کرنے اور بدعت کو ترک کرنے کی روش پر عمل کیا ہے، (یعنی صلاۃ پڑھتے وقت ’’سیدنا‘‘ نہیں کہنا چاہیے کیونکہ یہ ثابت نہیں۔)
۱۴… نماز کے دوران یا نماز کے علاوہ قنوت کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’صفۃ الصلوۃ‘‘ (ص۱۷۸) میں ’’پانچوں نمازوں میں قنوت نازلہ‘‘ کے عنوان کے تحت بیان کیا:
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے لیے بد دعا کرنے یا کسی کے لیے دعا کرنے کا ارادہ فرماتے تھے… اور آپ اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔‘‘
شیخ رحمہ اللہ نے ’’صفۃ الصلوۃ‘‘ کے حاشیے میں ’’اپنے ہاتھ اٹھاتے‘‘ کے جملے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
رہا اس موقع پر چہرے پر ہاتھ پھیرنا تو اس بارے میں کوئی چیز وارد نہیں، وہ بدعت ہے، رہا نماز کے علاوہ تو وہ صحیح نہیں، اور اس بارے میں جو بھی روایت کیا گیا ہے وہ ضعیف ہے، جبکہ ان میں سے بعض بعض سے زیادہ ضعیف ہیں، جیسا کہ میں نے اسے ’’ضعیف ابی داود‘‘ (۲۶۲) اور ’’احادیث الصحیحۃ‘‘ (۵۹۵) (مسودے میں ۵۹۷ہے) میں ثابت کیا ہے، اسی لیے عز بن عبدالسلام نے اپنے کسی فتوے میں کہا ہے:’’اسے صرف جہلاء کرتے ہیں‘‘!
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۲/۱۴۴) میں حدیث رقم (۵۹۵) کے تحت بیان کیا، اور ان احادیث (دیکھیں، ’’ارواء‘‘ رقم (۴۳۳،۴۳۴) کو ضعیف قرار دیا جن میں دعا کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنے کا حکم ہے:
گویا کہ عز بن عبدالسلام نے اسی لیے کہا: ‘‘(دعا کے بعد) چہرے پر صرف جاہل ہی ہاتھ پھیرتے ہیں۔‘‘ پس مناوی کا اس پر اعتراض اپنی جگہ پر نہیں، یہ کس طرح ہوسکتا ہے جب کہ یہ اضافہ اگر سند کے لحاظ سے ضعیف ہوتواس پر عمل کرنا جائز نہیں، کیونکہ وہ شرعی حکم کو متضمن ہے، اور مسح مذکور کا استحباب ہے، پس کس طرح جبکہ وہ انتہائی ضعیف ہے؟!
پھر ہمارے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۲/۱۴۵) میں اشارہ کیا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ’’الفتاوی‘‘ (۲۲/۵۱۴۔۵۱۹) میں اس (چہرے پر) ہاتھ پھیرنے والی روایت کے ضعف کی طرف اشارہ
|