اللُّحٰی، وَ خَالِفُوا الْمَجُوسَ))… ’’مونچھیں کتراؤ، داڑھیاں بڑھاؤ اور مجوس کی مخالفت کرو۔‘‘ کی شرح میں بیان کیا:
حافظ نے ’’فتح الباری‘‘ (۱۰/۲۹۶) میں بیان کیا:
’’اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں وہ مراد ہے، کہ وہ (مجوسی) اپنی داڑھیاں کترتے تھے، اور ان میں سے کوئی اسے مونڈتا بھی تھا۔‘‘
میں نے کہا: اس میں اس طرف قوی اشارہ ہے کہ داڑھی کترنا۔ جیسا کہ بعض جماعتیں کرتی ہیں۔ وہ مشابہت کے حوالے سے داڑھی مونڈنے کی طرح ہے، اور یہ کہ وہ جائز نہیں۔[1]
۳۔ مونچھیں مونڈنا
شیخ احمد بن یحییٰ نجمی حفظہ اللہ نے اپنی کتاب ’’تأسیس الأحکام علی ما صح عن خیر الانام بشرح أحادیث عمدۃ الأحکام‘‘ درج ذیل حدیث کی شرح کرتے ہوئے بیان کیا:
((الْفِطْرَۃُ خَمْسٌ: الْخِتَانُ، وَالْاِسْتِحْدَادُ، وَ قَصُّ الشَّارِبِ، وَ تَقْلِیْمُ الْأَظَافِرِ وَنَتْفُ الْاِبِطِ)) [2]
’’پانچ چیزیں فطرت ہیں: ختنے کرانا، زیر ناف بال مونڈنا، مونچھیں کترنا، ناخن تراشنا اور بغلوں کے بال اکھاڑنا۔‘‘
اس حدیث میں پانچ مسائل ہیں، ان میں سے چار کے سنت ہونے پر اتفاق ہے، اور وہ ہیں: زیر ناف بال مونڈنا، مونچھیں کترانا، ناخن تراشنا اور بغلوں کے بال اکھاڑنا۔
پانچویں چیز کے وجوب اور اس کے سنت ہونے کے بارے میں اختلاف ہے: اور وہ ہے ختنہ کرانا…الخ
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’تأسیس الاحکام‘‘ (ص۵۶) کے حاشیے میں فرمایا: یہ اتفاق محل نظر ہے، ابن حزم نے ’’المحلی‘‘ (۲/۲۱۸) میں صراحت کی ہے کہ مونچھیں کترنا فرض ہے، بلکہ ابن العربی المالکی نے بیان کیا، میرے نزدیک اس حدیث میں مذکورہ پانچوں چیزیں واجب ہیں، کیونکہ جب آدمی انہیں ترک کر دیتا ہے تو اس کی صورت آدمیوں کی صورت پر باقی نہیں رہتی، تو پھر جب تمام مسلمانوں میں اس طرح ہو تو ان کو ترک کیونکر کیا جاسکتا
|