جب تم نے اس تفصیل کو جان لیا تو یہ حدیث ’’المؤطا‘‘ کی حدیث کے لیے قوی شاہد ہے، اس کے الفاظ ہیں:
(( تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا کِتَابُ اللّٰہِ وَسُنَّۃُ رَسُوْلِہٖ۔)) (المشکاۃ:۱۸۶)
’’میں نے تم میں دو امر چھوڑے ہیں، تم ان پر مضبوطی سے قائم رہے تو تم ہر گز گمراہ نہیں ہو گے، اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔‘‘
ہمارے اس دور کے بعض نوخیز بھائیوں پر اس شاہد کی وجہ مخفی رہی جنہوں نے ’’الموطا‘‘ کی روایت کی تضعیف میں کئی صفحات کالے کر دیے، واللّٰہ المستعان۔
۱۷:… شیعہ اور موزوں پر مسح:
’’الطحاویۃ‘‘ کے مؤلف نے فقرہ (۷۶) میں فرمایا:
’’جیسا کہ اثر (حدیث) میں آیا ہے ہم سفر و حضر میں موزوں پر مسح کرنا جائز سمجھتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا[1]: مصنف نے دیگر مصنّفین کی متابعت کر تے ہوئے ذکر کیا کہ موزوں پر مسح کرنا سنت ہے جبکہ جرابوں اور جوتوں پر نہیں، اس کے دو سبب ہیں:
۱: موزوں پر مسح کرنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔
۲: رافضہ اس سنت کی مخالفت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ منقول ہے جسے دلیل بنانا ان کے خلاف زیادہ قوی دلیل ہے، پس موزوں کا ذکر جرابوں اور جوتوں پر مسح کرنے کے ثبوت کی بھی نفی نہیں کرتا۔
ہمارے شیخ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۶:۱۰۵۹) میں حدیث رقم (۲۹۴۰)[2] کے تحت فرمایا:
جان لیجیے کہ موزوں پر مسح کرنے کی احادیث متواتر ہیں، جیسا کہ حدیث و سنت کے کئی ایک ائمہ اور اس پر سلف و صحابہ کے عمل کے متعلق بہت زیادہ مشہور آثار نے اس کی صراحت کی ہے، ان میں سے بعض سے جو انکار مروی ہے تو وہ ان تک ان احادیث کے پہنچنے سے پہلے کا ہے، جیسا کہ فقہی مسائل میں زیادہ تر ہے، اسی لیے جب ان تک یہ روایات پہنچیں تو انہوں نے قول و عمل کے ساتھ ان کی طرف رجوع کر لیا، اور یہ آیت وضو میں اللہ تعالیٰ کے فرمان میں جر (زیر) [3] کی قراء ت کے مطابق ہے: ﴿وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ﴾ (المائدۃ:۶) پس بعض اسلامی فرقوں کا اس سنت کے انکار پر باقی رہنا جیسے رافضہ، خوارج اور اباضیہ، اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ
|