وہ ایسے امر کے بارے میں تجرے پر اعتماد کرتے ہیں جبکہ وہ سارے جانتے ہیں کہ وہ سنت مطہرہ کے خلاف ہے اور اس کے منع کردہ کام میں مبتلا ہونے کے مترادف ہے۔‘‘
۱۱: کونی و شرعی وسائل
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں عمدہ شروح وبسط اور طوالت اختیار کی ہے، بلکہ انہوں نے ایک مکمل فصل قائم کی ہے، انہوں نے اپنی وقیع کتاب ’’التوسل‘‘ (ص۱۸۔۳۰) میں اس (فصل) کا نام ’’الوسائل الکونیۃ والشرعیۃ‘‘[1] رکھا ہے۔ استفادہ کے لیے ہم اس فصل سے ان کے کلام سے ایک حصہ نقل کرتے ہیں:
انہوں نے ’’التوسل‘‘ (ص۲۱) میں فرمایا:
تصوراتی شرعی اسباب میں سے لوگوں کا بعض اسباب اختیار کرنا جن کے متعلق وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ انہیں اللہ سبحانہ کا قرب عطا کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ انہیں اس سے دور کرتے ہیں، وہ ان کے لیے ناراضی و غضب بلکہ لعنت و عذاب کا سبب بنتے ہیں، پس ان میں سے کچھ لوگوں کا قبروں میں مدفون اولیاء و صالحین سے مدد طلب کرنا، تاکہ وہ ان کے لیے ان کی ضرورتیں پوری کریں جنھیں صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی پورا کرسکتا ہے، جیسا کہ ان کا نقصان سے بچنے کے لیے انہیں پکارنا، بیماروں کے لیے شفا مانگنا، رزق طلب کرنا، اندھے پن کا ختم ہوجانا، دشمن کے خلاف مدد طلب کرنا اور اس طرح کی دیگر ضرورتیں طلب کرنا …
اور انہوں نے (ص:۲۴ پر) فرمایا:
رہا شرعی وسیلہ تو اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ صرف شریعت میں ثابت ہو نہ کہ کسی اور سے۔
اور انہوں نے ’’التوسل‘‘ میں (ص۲۴۔۲۵ پر) بھی فرمایا:
ان امور میں بہت سے لوگ جو اخلاط کا شکار ہوئے ہیں، ان کا خیال ہے کہ وسیلے کے جائز و مشروع ہونے کے ثبوت کے لیے محض وسیلے کے ذریعے نفع حاصل ہونا ہی کافی ہے، بسا اوقات ایسے ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی کسی ولی سے دعا کرتا ہے یا کسی میت سے مدد طلب کرتا ہے تو اس کی مراد اور تمنا پوری ہوجاتی ہے، تو وہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مردے اور اولیاء لوگوں کی مرادیں پوری کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اور یہ ان سے دعا کرنے اور ان کے ذریعے مدد طلب کرنے کے جواز پر استدلال کرتا ہے، اس کی مراد پوری ہونے کے علاوہ اس پر اس کے پاس کوئی اور دلیل نہیں، افسوس کی بات ہے کہ، ہم نے بعض دینی کتب میں اس طرح کی بہت سی چیزیں پڑھی ہیں، جب انھیں لکھنے والا کہتا ہے یا وہ ان میں سے بعض سے اس کا قول نقل کرتا ہے مثلاً: وہ کسی
|