Maktaba Wahhabi

150 - 756
مذمومہ، پس جو سنت کے موافق ہوجائے تو وہ محمود ہے اور جو سنت کے مخالف ہو وہ مذموم ہے۔‘‘ انہوں نے نماز تراویح کے متعلق عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان: ’’نعمت البدعۃ‘‘[1] سے دلیل لی۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’إصلاح المساجد‘‘ (ص۱۵) پر اپنے حاشیے میں قاسمی کی سابقہ بات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ کلام دقیق نہیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح باجماعت پڑھی ہے، بلکہ آپ نے اپنے فرمان کے ذریعے اس کی ترغیب دلائی ہے۔ فرمایا: ’’جس نے امام کے ساتھ قیام کیا حتیٰ کہ وہ (قیام سے) فارغ ہوگیا، اس کے لیے رات کے قیام کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘ اصحاب السنن نے صحیح سند سے اسے روایت کیا ہے اور میں نے اپنے رسالہ ’’صلٰوۃ التراویح‘‘ (ص:۱۷) میں اسے نقل کیا ہے، تو پھر باجماعت نماز تراویح کے متعلق کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ وہ بدعت ہے اور وہ پہلے نہیں تھی! اے اللہ! معاف فرما! حق بات یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ جو فرمایا: ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ اس سے ان کی مراد بدعت شرعیہ نہیں تھی، کیونکہ وہ (بدعت شرعیہ) تو سب کی سب گمراہی ہے، انہوں نے محض بدعت لغویہ کا ارادہ فرمایا اور وہ امر جدید ہے جو کہ پہلے نہ تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک امام کے پیچھے باجماعت نماز تراویح عمر کے دور میں معروف تھی نہ ابوبکر رضی اللہ عنہما کے دور میں، پس انہوں نے اس اعتبار سے اسے بدعت کا نام دیا اور اسے حسن سے موصوف کیا، کیونکہ اس کے حسن ہونے پر شرعی دلیل ہے۔ (اس موضوع پر) یہ جلدی میں لکھ دیا ہے، جبکہ مسئلہ تفصیل طلب ہے اور موقع ومحل وسیع نہیں، تو جو شخص تفصیل چاہتا ہو وہ ہمارے اس رسالے کا مطالعہ کرے جس کا ابھی ذکر کیا ہے یا پھر امام شاطبی کی کتاب ’’الاعتصام‘‘ کی طرف رجوع کرے۔ ۹… حدیث : ’’ لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ آوٰی مُحْدِثًا‘‘[2] …’’کسی بدعتی کو پناہ دینے والے پر اللہ کی لعنت ہو‘‘ کی تشریح ہمارے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’المشکاۃ‘‘ (۲/۱۱۹۲)[3] رقم (۴۰۷۰) میں اس کے معنی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:
Flag Counter