فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل
ہمارے لیے یہ کہنا جائز ہوگا کہ ہمارے شیخ البانی رحمہ اللہ اپنے ہم عصر علماء میں سے اس قاعدے کے متعلق، جو کہ مختلف فیہ ہے، سب سے زیادہ آگاہ تھے، وہ قاعدہ جس کے متعلق خاص لوگوں میں سے زیادہ تر یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ مسلم قاعدوں میں سے ہے، وہ اختلافی نہیں، وہ امام نووی کے نقل کرنے پر اعتماد کرتے ہوئے یہ موقف رکھتے ہیں، جنہوں نے اپنی زیادہ تر کتابوں میں اس پر اتفاق نقل کیا ہے۔[1]
شیخ رحمہ اللہ نے اپنے بہت سے رسالوں اور کتابوں میں اس پر متنبہ کیا ہے کہ اس قاعدے پر عمل کرنا جائز نہیں، کیونکہ فضائل اعمال شریعت ہیں یا کسی بھی چیز کا استحباب جو ضعیف حدیث پر مبنی ہو، کیونکہ استحباب شرعی حکم ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب اسی چیز سے حاصل ہوتا ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں واضح کیا یا وہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے صحیح ثابت ہو اور احکام شرعیہ … جیسا کہ شوکانی نے فرمایا … برابر ہیں، جب ضعیف احادیث، اور وہ بڑی تعداد میں سے تھوڑی ہیں، ان میں سے اکثر بدعات اور گمراہیوں کی جڑ ہیں اور وہ ثابت شدہ دلائل کی مخالفت کے اسباب میں سے ہیں۔‘‘[2] ہم نے اس اہم باب میں اس مسئلے کے لیے شیخ کے تمام کلام کو ابواب التأصیل میں سے دیکھا ہے۔
اور شیخ رحمہ اللہ نے، جیسا کہ ہم نے بیان کیا، اس قاعدے کا ذکر کیا، اسے جھٹلایا اور درج ذیل مصادر میں اس کے متعلق وسیع پیمانے پر بیان کیا:
۱: ’’صحیح الترغیب والترہیب‘‘ کا مقدمہ (۱/۴۷۔۶۶) ط: المعارف۔
۲: ’’تمام المنۃ‘‘ (ص۳۴۔۴۰)
۳: مقدمۃ ’’صحیح الجامع‘‘ (ص۴۹۔۵۶)۔
انہوں نے اس مسئلہ کی طرف ’’الضعیفۃ‘‘ (۱/۴۷۱، ۴۹۲، ۶۵۱، ۲/۶۵، ۱۵۲،۲۶۴)، ’’ضعیف سن ابی داود‘‘ (۱/۲۴۷۔۲۴۸، ط: غراس)، ’’الصراط المستقیم رسالۃ فیما رواہ الثقات الأثبات فی لیلۃ النصف من شعبان‘‘ (ص۹۔ ۱۰) کی تخریج، ’’أحکام الجنائز‘‘ (ص۱۹۴۔۱۹۸)۔ ط: المعارف، ’’الکلم الطیب‘‘ (ص۵۲۔۵۴)[3] کی تخریج۔ ط: المعارف، ’’الثمر المستطاب‘‘ (ص۲۱۷۔۲۱۹) اور
|