ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: …’’پھر موت کا فرشتہ [1] آتا ہے…‘‘ کی ’’احکام الجنائز‘‘
(ص۱۹۹، ۳۱۸) میں تشریح کرتے ہوئے فرمایا:
کتاب و سنت میں اس کا نام یہ (ملک الموت) ہے، رہا اس کا عزرائیل نام رکھنا تو یہ ایسے امور میں سے ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں، حالانکہ لوگوں کے پاس وہ اسی نام (عزرائیل) سے مشہور ہے، ہوسکتا ہے وہ اسرائیلیات میں سے ہو۔
۴: یہ کہنا کہ حدیث آحاد اسلامی عقائد میں حجت نہیں اگرچہ وہ شرعی احکام[2] میں حجت ہے یا دلیل لینے کے حوالے سے آحاد اور متواتر روایات میں فرق کرنا
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اپنے رسالے ’’وجوب الأخذ بحدیث الآحاد‘‘ میں بیس طرح سے اس دعوے کا ردّ کیا ہے اور اس پر اعتراض کیا ہے، ہم ایک ہی صورت بیان کرنے پر اکتفا کریں گے، جو مزید و تفصیل کا طالب ہو تو وہ جناب شیخ کے دو رسالوں ’’وجوب الأخذ بحدیث الآحاد‘‘ اور ’’الحدیث حجۃ بنفسہ‘‘ کا مطالعہ کرے۔
شیخ رحمہ اللہ نے اپنے رسالے ’’وجوب الأخذ بحدیث الآحاد‘‘ (ص۷۔۸ ط: مکتبہ اسلامیہ) میں فرمایا:
ان میں سے بعض کا یہ موقف ہے کہ عقیدہ صرف قطعی دلیل جیسے کوئی آیت یا وہ متواتر حدیث جس کا تواتر حقیقی ہو، سے ثابت ہوتا ہے، اگر یہ دلیل ہو اس میں تاویل کا احتمال نہ ہو، اور دعویٰ کیا کہ یہ ان مسائل میں سے ہے جس پر علمائے اصول کے ہاں اتفاق کیا گیا ہے اور یہ کہ احادیث آحاد علم[3] فائدہ پہنچاتی ہیں نہ ان سے عقیدہ ثابت ہوتا ہے! [4]
میں کہتا ہوں: یہ قول، اگرچہ ہمیں معلوم ہے کہ اسے متقدمین علمائے کلام میں سے کسی نے کہا ہے، تو یہ کئی وجوہات کی بنا پر باطل ہے۔
وجہ اوّل…: یہ کسی بدعتی شخص کا قول ہے، اس کی روشن شریعت اسلامی میں کوئی بنیاد نہیں، وہ قرآن کی ہدایت
|