Maktaba Wahhabi

778 - 756
نے تمام اضافوں کے درمیان جمع وتطبیق میں اپنے طریق پر اسے نقل نہیں کیا اور ہم نے مقدمۃ الکتاب میں اپنی مذکورہ شرط کی پابندی کی، عزبن عبدالسلام نے ’’الفتاوی‘‘ (۶۶/۱۔ سال ۱۹۶۲ء) میں بیان کیا: ’’قنوت (وتر) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود صحیح ثابت نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درود پر کسی چیز کا اضافہ کرنا مناسب نہیں۔‘‘ اس قول میں ان کی طرف سے اس طرف اشارہ ہے کہ اس میں بدعت حسنہ کہنے کی کوئی گنجائش نہیں، جیسا کہ بعض متاخرین کا کہنا ہے۔ پھرمیں نے استدراک کیا توکہا: ابی بن کعب کی قیام رمضان میں لوگوں کی امامت کرانے کی روایت میں ہے،کہ وہ قنوت کے آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا کرتے تھے، اور یہ عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں تھا، ابن خزیمہ نے اسے اپنی ’’الصحیح‘‘ (۱۰۹۷) میں روایت کیا، اور اس کی مثل ابو حلیمہ معاذ انصاری سے ثابت ہے جو ان کے عہد میں ان کی امامت کرایا کرتے تھے، اسماعیل القاضی (رقم ۱۰۷) اور دیگر نے اسے روایت کیا، تو وہ اضافہ سلف کے اس پر عمل کرنے کی وجہ سے مشروع ہے، لہٰذا اس اضافے پر بدعت کا اطلاق مناسب نہیں۔ واللّٰہ اعلم۔ ۵: امام مالک کے نزدیک سفر سے واپس آنے والے کے معانقے کی بدعت [1] اور اس کا جواب شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کے بعد کہ انہوں نے ملاقات کے وقت مصافحہ کے سنت ہونے اور اسی طرح سفر سے واپس آنے پر معانقہ کے سنت ہونے کا اثبات کیا، اور اس کے لیے پہلے (یعنی مصافحہ) کے لیے فعلی اور قولی دلائل ذکر کیے، اور دوسرے (یعنی معانقہ) پر فعلی دلائل ذکرکیے (دیکھیں) ’’الصحیحۃ‘‘ (۶/۳۰۶) انہوں نے بیان کیا: جان لیجیے کہ بعض ائمہ جیسے ابو حنیفہ، اور ان کے شاگرد محمد کاموقف ہے کہ معانقہ مکروہ ہے، طحاوی نے ان دونوں سے اسے روایت کیا، جبکہ ابویوسف کا موقف اس کے برعکس ہے۔ اور ان میں سے امام مالک ہیں، ’’الآداب الشرعیۃ‘‘ (۲/۲۷۸) میں ہے: ’’مالک نے سفر سے آنے والے سے معانقہ کرنا مکروہ جانا ہے، اور انہوں نے کہا: ’’بدعت‘‘ ہے، اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل سے، جو انہوں نے جعفر کے ساتھ (معانقہ) کیا تھا جس وقت وہ (حبشہ سے) آئے تھے،[2] براءت کا اظہار کیا ہے، کہ وہ آپ کے لیے خاص ہے، سفیان نے انہیں
Flag Counter