ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’صلاۃ التراویح‘‘ (ص۸۰) میں ’’علماء میں سے جس نے اس اضافے کا انکار کیا ان کا ذکر‘‘ کے عنوان کے تحت ایک فصل میں بیان کیا:
امام ابن العربی نے ’’شرح الترمذی‘‘ (۴/۱۹) میں عمر سے مروی متعارض [1] روایات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد فرمایا اور اپنی بات یہاں تک پہنچائی کہ تراویح کی رکعتوں میں کوئی محدود حد نہیں۔
’’اور صحیح یہ کہ گیارہ رکعتیں پڑھی جائیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور آپ کا قیام ہے، جو اس کے علاوہ تعداد ہے تو اس کی کوئی اصل ہے نہ اس میں کوئی حد ہے تو جب حد نہیں تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو پڑھتے تھے، وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، یہی نماز قیام اللیل ہے، لہٰذا واجب ہے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی جائے۔
اسی لیے امام محمد بن اسماعیل صنعانی نے ’’سبل السلام‘‘ میں صراحت کی ہے کہ تراویح میں بیس کی تعداد بدعت ہے، (۲/۱۱۔۱۲) نے فرمایا:
’’کوئی بھی بدعت قابل تعریف نہیں، بلکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
پھر ہمارے شیخ نے ’’صلاۃ التراویح‘‘ (ص۸۱) میں بیان کیا۔
… اب ہمارے لیے کافی ہے کہ ہم قارئین کو صحابی جلیل عبد اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے فرمان: ’’ہر بدعت گمراہی ہے خواہ لوگ اسے اچھا تصور کریں۔‘‘ کے ذریعے نصیحت کریں۔
ب: نماز تراویح کے لیے اذان:
’’صلاۃ التراویح‘‘ (ص۳۳)۔
۳۔ نماز عیدین کی بدعات
ا: مساجد میں نماز عیدین
شیخ البانی رحمہ اللہ نے شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ سے عید گاہ میں نماز عیدین پر ایک نفیس کلام نقل کیا ہے، جو ان کی ترمذی (۲/۴۲۱۔۴۲۴) پر ’’صلاۃ العیدین‘‘ (ص۲۷۔۳۲) [2] کے موضوع کے حوالے سے ان کی تعلیق ہے:
…’’اور امام شافعی نے اپنی کتاب ’’الأم‘‘ (۱/۲۰۷) میں فرمایا:
|