اسی لیے الفقیہ ابن عابدین نے الحاشیہ (۱/۷۷۸) میں فرمایا:
’’کسی ایسے وقت سے ذکر کی تخصیص کرنا جو کہ شرع نے ذکر نہ کیا ہو تو وہ مشروع نہیں۔‘‘
اور اسی حوالے سے اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی ایسے وقت سے ذکر کی تخصیص کرنے جو کہ منقول نہیں اور کسی عدد کے ساتھ جو کہ منقول نہیں اس کی تخصیص کرنے کے درمیان کوئی فرق نہیں، وہ سب ایک ہی زمرے میں آتے ہیں، جو اسے جائز قرار نہیں دیتا وہ اسے بھی جائز قرار نہیں دیتا اور اسی طرح عکس کے بدلے عکس جیسے حضرت شیخ، کیونکہ ان کا کلام عدد مطلق کی تقیید کے جواز میں صریح ہے، انہوں نے اس کے بعد (ص۲۹ ) فرمایا:
’’کیا یہ شرعاً نقصان دہ ہے کہ کوئی شخص ان اذکار میں سے (روزانہ) عدد مخصوص پر پابندی کرے اور وہ روزانہ اس (عدد) میں کمی نہ کرے…؟‘‘
تو جو شخص یہ کہتا ہے، وہ ان اذکار کی کسی وقت کے ساتھ تخصیص کے جواز کے متعلق کہتا ہے جس کے ساتھ الشارع الحکیم نے اسے مخصوص قرار نہیں دیا اور یہ اس چیز سے بڑی لاعلمی ہے جو امام شاطبی اور الفقیہ ابن عابدین کے حوالے سے بیان ہوا، اور لوگوں کی اس قاعدے سے جہالت نے انھیں بہت سی بدعات میں مبتلا کردیا ہے، اور (دوسرا سبب یہ ہے کہ) ان میں سے لوگوں نے عمومات کو اختیار کیا اور ان پر اپنی آراء سے ایسی قیدیں اور شکلیں داخل کیں جن کے متعلق اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری، اور میں سمجھتا ہوں کہ میں اس پر کچھ مثالیں ذکر کردوں جن کے بدعت ہونے پر علماء نے متنبہ کیا تاکہ وہ غافلین کے لیے تنبیہ ہو اور مومنوں کے لیے نصیحت ہو۔
۲: ان بدعات[1] کی چند مثالیں جن کو شیخ (الحبشی) علماء کے خلاف مشروع قرار دیتا ہے
۱: عیدین کے لیے اذان۔
۲: نماز سے سلام پھیرنے کے بعد سہو کے بغیر سجدے کرنا۔
’’الباعث علی انکار البدع والحوادث‘‘ (ص۴۲)، الاقتضاء لابن تیمیۃ (ص۱۴۰)، ’’حاشیۃ ابن عابدین‘‘ (۱/۷۳۱)
۳: نمازوں کے بعد مصافحہ کرنا۔
’’حاشیۃ ابن عابدین‘‘ (۵/۳۳۶)، ’’المدخل‘‘ (۲/۲۱۹)
۴: ختم قرآن کے وقت اجتماعی دعا۔ ’’الفتاوٰی الہندیۃ‘‘ (۵/۲۸۰)
۵: لوگوں کا یک زبان ہوکر مل کر ایک سورت کی قراء ت کرنا۔
|