تمہید
شرعی اذکار و اوراد توقیفی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں وارد ہیں اور جوسنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہیں، لوگوں میں سے کسی شخص کو ذکر کے اختراع، بدعت یا کوئی ذکر بنانے کا حق حاصل نہیں، وہ اس میں کوئی کمی بیشی کر سکتا ہے نہ اس میں کوئی تبدیلی کر سکتا ہے خواہ معنی میں کوئی خرابی پیدا نہ ہوتی ہو، اسی طرح اذکار میں سے کسی ذکر کے لیے کوئی طریقہ اختراع کرنے کا کوئی حق حاصل ہے نہ کسی ہیئت کا نہ کسی طریقے کا اور نہ مکان و زمان کی تعیین و تقیید کا جو شرع کے مطابق نہ ہو۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’صحیح الترغیب و الترھیب‘‘ (۱/۳۸۸) میں براء رضی اللہ عنہ کی روایت رقم (۶۰۳) پر شرح کرتے ہوئے فرمایا اور اس میں ہے:
… جب میں ’’اٰمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ‘‘ پر پہنچا تو میں نے کہہ دیا: ’’وَرَسُولِکَ‘‘ ! آپ نے فرمایا: ’’نہیں، ’’وَنَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ۔‘‘
اس میں بڑی قوی تنبیہ ہے کہ اوراد و اذکار توقیفی ہیں، اس میں کمی بیشی کرنا جائز ہے نہ کسی لفظ کو بدلنا جائز ہے خواہ اس سے معنی میں کوئی خرابی پیدا نہ ہوتی ہو، بے شک لفظ ’’الرسول‘‘ لفظ ’’النبی‘‘ سے زیادہ عموم رکھتا ہے، اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہیں فرمایا بلکہ اس کی تردید کی، اس کے باوجود کہ براء رضی اللہ عنہ نے اسے سہواً کہا تھا عمداً نہیں کہا تھا!
وہ بدعتی لوگ تو اس سے بہت آگے جا چکے ہیں جو ذکر میں کسی قسم کی زیادتی یا کمی کو کوئی حرج نہیں سمجھتے؟! کیا کوئی عبرت و نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟ اسی طرح وہ خطباء ہیں جو خطبۃ الحاجۃ کو کمی بیشی اور تقدیم و تاخیر سے بدل دیتے ہیں، ان میں سے جو اللہ اور دار آخرت سے ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے اس سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے۔
اوّل: …قرآن کریم کی تلاوت کی بدعات
۱: یک زبان اور جمع ہوکر اکٹھے قرآن کی تلاوت کرنا:
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’ریاض الصالحین‘‘ (ص۱۳۶) میں حدیث رقم (۲۵۰) پر اپنی شرح میں بیان کیا: حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
|