Maktaba Wahhabi

517 - 756
غائبانہ نماز جنازہ کی تفصیل: [1] ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’أحکام الجنائز‘‘ (ص۱۱۸۔ ۱۲۰)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (ص ۴۸) میں بیان کیا: اس مسئلے میں ’’زاد المعاد‘‘ (۱/ ۲۰۵، ۲۰۶) میں ابن القیم رحمہ اللہ کے کلام کا خلاصہ پیش خدمت ہے: ’’غائبانہ نماز جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور آپ کی سنت سے نہیں، بہت سے مسلمان آپ سے دور فوت ہوئے اور آپ نے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، البتہ آپ سے صحیح ثابت ہے کہ آپ نے نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی، اس میں تین طرق پر اختلاف کیا گیا ہے: ۱: یہ امت کے لیے تشریع او ر سنت ہے کہ ہر غائب شخص کی نماز جنازہ پڑھی جائے، یہ شافعی اور احمد کا موقف ہے۔ ۲: ابوحنیفہ اور مالک کا موقف ہے: یہ صرف اس کے لیے خاص ہے، اس کے علاوہ کسی اور کے لیے نہیں۔ ۳: اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا: ’’درست بات تو یہ ہے کہ ایسا غائب وغیر موجود شخص جو کسی ایسی جگہ فوت ہو جائے جہاں اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو، اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھائی کیونکہ وہ کافروں کے علاقے میں فوت ہوئے تھے، ان کی نماز جنازہ (وہاں) نہیں پڑھی گئی تھی، اگر اس کی جہاں اس نے وفات پائی تھی، نماز جنازہ پڑھ دی گئی تو پھر اس کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، کیونکہ مسلمانوں کے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کی وجہ سے فرض ساقط ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غائبانہ نماز جنازہ پڑھی بھی ہے اور چھوڑی بھی ہے، آپ کا کسی کام کو کرنا اور اسے نہ کرنا سنت ہے، اور یہ آپ کا مقام ہے۔ واللہ اعلم تینوں اقوال احمد کے مذہب و موقف میں ہیں، اور ان میں سے سب سے زیادہ صحیح یہ تفصیل ہے۔‘‘ میں نے کہا: شافعیہ میں سے بعض محققین نے اسے اختیار کیا ہے، امام خطابی نے ’’معالم السنن‘‘ میں بیان کیا، اس کی نص یہ ہے: ’’میں نے کہا: نجاشی مسلمان شخص تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے اور آپ کی نبوت کی تصدیق کر چکے تھے، لیکن انہوں نے اپنا ایمان ظاہر نہیں کیا تھا، جب مسلمان فوت ہو جائے تو مسلمانوں
Flag Counter