سے افضل ابو بکر اور عمر ہیں۔ وہ اس بارے میں باطل طریقے سے بہت بڑا مباحثہ ومجادلہ کرتے ہیں اور اس راہ میں ہر سہل و مشکل چیز کا ارتکاب کرتے ہیں، اور وہ صحیح احادیث سے اعراض کرتے ہیں … جیسے ابن عمر کی یہ حدیث ہے … اور وہ ضعیف و موضوع روایات سے استدلال کرتے ہیں … جیسے عمر کی یہ حدیث ہے، اور اس سے جو پہلے احادیث ہیں، اور جو آئیں گی …
پس یہ شیعی اور اس جیسے وہ لوگ جو اس نص کے اس حصے کو لیتے ہیں جو ان کی خواہشات کے مطابق ہوتا ہے، اور اس میں سے وہ چھوڑ دیتے ہیں جو ان کے مخالف ہوتاہے، پس ایسے ہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے خطاب فرماتے ہوئے فرمایا:
﴿اَفَتُؤمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ (البقرۃ: ۸۵)
’’کیا تم کتاب کے بعض حصے پرایمان لاتے ہو اور بعض حصے کا انکار کرتے ہو، پس تم میں سے جو اس طرح کرے گا اس کی بس یہی سزا ہے کہ اس کے لیے دنیا کی زندگی میں رسوائی ہے اور قیامت کے دن وہ سخت عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ اور تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ اس سے غافل نہیں۔‘‘
۱۵:… غدیر (خُم) کے متعلق بحث اور ’’المراجعات‘‘ کے مؤلف کا ایسی روایات اور الفاظ سے استدلال کرنا جو اس کے متعلق صحیح نہیں:
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱۰/ ۶۸۰۔ ۶۸۲) حدیث رقم (۴۹۶۱)[1] کے تحت فرمایا:
رہا شیعی تو اس نے وہ حدیث اس طرح (ص۱۸۷) پیش کی:
’’طبرانی اور اس کے علاوہ دیگر نے زید بن ارقم سے اسی سند سے روایت کیا جس کی صحت پر اتفاق ہے، بیان کیا:…‘‘ اس نے اسے مکمل ذکر کیا، البتہ اس نے اس کی ابتدائی عبارت کا اختصار کیا۔
میں نے کہا: شیعی کے اس کلام میں کم از کم دو غلطیاں ہیں۔ میں نہیں کہتا: دو غلطیاں ہیں:
(۱)… اس کا یہ کہنا: ’’ایسی سند کے ساتھ جس کی صحت پر اتفاق ہے!‘‘ تو یہ ظاہر جھوٹ ہے! کیونکہ اس طرح کے دعوے کا اثبات ممکن نہیں ہوتا حتی کہ کسی ثقہ عالم سے جو کہ علم حدیث میں تخصص رکھتا ہو، تو پھر کس طرح جبکہ اس کا دعوی کرنے والا تو کسی شمار میں نہیں؟ بلکہ ہم نے اس کے بہت زیادہ جھوٹ پکڑے ہیں، جس کا بیان کئی بار گزر چکا ہے۔
|