Maktaba Wahhabi

385 - 756
پر بلند آواز سے صلاۃ و سلام … بدعت اور مکروہ ہے۔‘‘ پر اپنی کتاب ’’تمام المنۃ‘‘ (ص۱۵۸) میں فرمایا: میں نے کہا: اس کا مفہوم یہ ہے کہ اسے پست آواز سے پڑھنا سنت ہے، تو اس پر دلیل کہاں ہے؟! اگر یہ کہا جائے: وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ’’جب تم مؤذن کو سنو تو جس طرح وہ کہتا ہے تم بھی اسی طرح کہو، پھر مجھ پر صلاۃ پڑھو…‘‘ تو جواب ہے: اس میں خطاب ان سامعین کے لیے ہے جو مؤذن کو سن رہے ہیں اور وہ جواب دینے پر مامور ہیں، اس میں مؤذن بذات خود شامل نہیں، ورنہ یہ قول لازم کرتا کہ وہ خود بخود بھی اپنے قول کا جواب دے، اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں، اس کا قائل ہونا دین میں بدعت ہے۔ ۷… اذان کے بعد مؤذن کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بلند آواز سے صلاۃ پڑھنا ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ (۴۹۔۵۰) میں فرمایا: اس حدیث [1] میں تین سنتیں ہیں جن میں اکثر لوگ سستی کرتے ہیں: مؤذن کے کلمات کا جواب دینا، اذان کا جواب دینے سے فارغ ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ بھیجنا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وسیلہ کا سوال کرنا۔[2] اور بڑی عجیب بات ہے کہ تم ان سنتوں میں سستی برتنے والوں کو اذان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مؤذن کے بلند آواز سے صلاۃ پڑھنے کی بدعت پر تعصب کے طور پرسب سے زیادہ تمسک کرنے والے دیکھو گے حالانکہ وہ بالاتفاق بدعت ہے، اگر وہ ایسا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کے طور پر کرتے ہیں تو وہ اس سنت میں آپ کی اتباع کیوں نہیں کرتے اور اس بدعت کو کیوں نہیں چھوڑتے؟ ہم اللہ سے ہدایت کا سوال کرتے ہیں۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۲/۲۹۴) میں بیان فرمایا: اذان کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بلند آواز سے صلاۃ و سلام پڑھنا بدعت ہے جیسا کہ محقق علماء نے اسے بیان کیا ہے، اور ہم نے اسے ’’تسدید الاصابۃ‘‘ کے پہلے رسالے میں ذکر کیا ہے۔ اور ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۲/۲۹۴) میں بیان کیا: تنبیہ:… بے شک علماء نے جب اس بدعت کا انکار کیا، تو کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں آنی چاہیے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرصلاۃ کی مشروعیت سے انکار کرتے ہیں، بلکہ وہ تو صرف اسے اس جگہ پڑھنے کا انکار کرتے ہیں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھنے کا نہیں فرمایا، یا یہ کہ وہ صفات و ہیئات اس کے ساتھ شامل نہ ہو جائیں جنہیں اللہ نے اپنے نبی کی زبان پر مشروع قرار نہیں دیا، جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح ثابت ہے کہ ایک آدمی نے چھینک
Flag Counter