آجاتے اور جھومتے تھے حتیٰ کہ چادر آپ کے کندھوں سے گر پڑتی۔[1] اور اس جیسی دیگر روایات، اس جیسی احادیث
جو کہ معلوم ہیں۔ ان پر حکم کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔ انہیں تشریع میں کبھی بنیاد نہ بنائیں اور جس نے انہیں اس طرح بنایا تو وہ نقل علم میں جاہل و خطاکار ہے، اس سے کسی چیز کا اخذ منقول نہیں جسے ہم علم کے طریقے میں شمار کرتے ہیں اور نہ ہی سلوک کے طریقے میں۔
بعض علماء نے حسن حدیث سے اخذ کیا کیونکہ وہ محدثین کے نزدیک صحیح سے منسلک ہے، کیونکہ اس کی سند میں ایسا کوئی راوی نہیں جس پر بالاتفاق جرح کی گئی ہو، اور اسی طرح ان میں سے بعض نے مرسل کے ساتھ احکام اخذ کیے، یہ اسی حیثیت سے ہے کہ اس کا صحیح کے ساتھ الحاق کیا گیا ہو، اس طرح کہ جس کا تذکرہ نہیں کیا گیا وہ ایسے ہو جیسے اس کا تذکرہ کیا گیا ہے اور اسے عادل قرار دیا گیا ہے۔ [2]
رہا وہ جو اس کے علاوہ ہے تو اسے علمائے حدیث کے نزدیک کسی حال میں بھی نہیں لیا جائے گا۔
اگر اہل اسلام کی یہ حالت ہوتی کہ وہ احادیث کے حوالے سے ہر روایت ہر راوی سے لے لیتے تو پھر ان کا تعدیل یا ترجیح کا فریضہ ادا کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا، اس کے باوجود انہوں نے اس پر اکٹھ کیا، اور طلب اسناد کا بھی کوئی معنی نہ ہوتا، اسی لیے انہوں نے اسناد کو دین کا حصہ قرار دیا اور وہ محض یہ مراد نہ لیتے: ’’حدثنی فلان عن فلان‘‘ بلکہ وہ اس سے راویوں کی معرفت بھی مراد لیتے ہیں جو ان سے حدیث بیان کرتے حتیٰ کہ مجہول سے روایت لی جائے نہ مجروح سے اور نہ ہی متہم سے، مگر اس سے جو اپنی روایت کے حوالے سے ثقہ ہو، کیونکہ مسئلے کی روح یہ ہے کہ وہ ظن و گمان پر غالب ہو اور اس میں کوئی شک نہ ہو یہ کہ وہ حدیث ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تاکہ ہم شریعت میں اس پر اعتماد کرسکیں اور اس کی طرف احکام منسوب کرسکیں۔
ضعیف احادیث ظن و گمان پر غالب نہیں آتیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا ہے، ان کی طرف احکام منسوب کرنا ممکن نہیں، تو ان حدیثوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے جو کذب میں معروف ہیں؟ ہاں، عموماً ان پر وہی اعتماد کرتا ہے جو خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔
اور ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’تمام المنۃ‘‘ (ص۳۴۔۳۸) میں فرمایا:
بارھواں قاعدہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل نہ کرنا
بہت سے اہل علم اور ان کے طلباء میں یہ بات مشہور ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز
|