Maktaba Wahhabi

128 - 756
دوم …: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ (حم السجدۃ:۳۳) ’’اس شخص سے بہتر بات کس کی ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے۔‘‘ اور اللہ عزوجل نے فرمایا: ﴿ اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا﴾ (الاحزاب:۴۱) ’’اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرو۔‘‘ جب کسی شخص نے دونوں عیدوں، سورج و چاند گرہن اور نماز تراویح کے لیے اذان دینا ہمارے لیے مستحب قرار دیا اور ہم نے کہا: کس طرح جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا نہ اس کے متعلق حکم فرمایا اور اپنی پوری زندگی اسے ترک کیے رکھا، تو اس نے ہمیں کہا: مؤذن اللہ کی طرف بلانے والا ہے اور مؤذن اللہ کا ذکر کرنے والا ہے، تو پھر تم اس کے خلاف کس طرح حجت قائم کرو گے اور کس طرح اس کی بدعت کو باطل قرار دو گے؟[1] سوم …: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ﴾ (الاحزاب:۵۶) ’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔‘‘ اگر عمومات پر عمل کرنا اور انہیں اخذ کرنا صحیح ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز کے قیام و رکوع، اس کے اعتدال و سجود اور ان کے علاوہ دیگر جگہوں میں صلاۃ و سلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب اختیار کیا جائے، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھنا قرار نہیں دیا، صحیح ہے۔ کون شخص اس طرح سے اللہ تعالیٰ کا قرب اختیار کرنے کو جائز قرار دیتا ہے اور کیا اس طریقے کے ساتھ عبادت معتبر ہوگی؟ اور یہ اس حدیث ’’صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ‘‘[2] کے ہوتے ہوئے کس طرح ہوسکتا ہے؟ چہارم …: صحیح حدیث میں وارد ہے: ’’وہ زمین جو بارش، چشموں اور زمین کی نمی سے سیراب ہوتی ہو تو اس میں عشر ہے اور وہ زمین جسے ذرائع آب پاشی سے سیراب کیا جائے اس میں نصف عشر (بیسواں حصہ) ہے۔‘‘ اگر اس کے عموم کو لیا جائے تو اس میں زکوٰۃ واجب ہے، اس اصل کے علاوہ ان کے پاس زکوٰۃ کے عدم وجوب کے بارے میں کوئی دلیل نہیں، اور وہ (اصل) یہ ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عمل کو اس کے کرنے کا تقاضا ہونے کے باوجود ترک کیا تو اسے ترک کرنا سنت ہے اور اسے بجالانا بدعت ہے۔ [3] سوم: رائے کے ذریعے مطلق نصوص کی تقیید ہمارے شیخ البانی نے ’’الرد علی الحبشی‘‘ (ص۴۷۔۵۱) میں فرمایا:
Flag Counter