Maktaba Wahhabi

103 - 756
حدیث پر عمل کرنے کا موقف رکھتے ہیں حالانکہ اس موقف کی تفسیر میں ان کے درمیان بہت اختلاف ہے جیسا کہ آپ اسے ان جوابات میں مفصل پائیں گے جن کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا ہے، تو کبھی حدیث اس طرح باطل ہوتی ہے کہ کوئی اس پر اطلاق کرتا ہے کہ وہ ضعیف ہے، دوسرا آتا ہے تو وہ کہتا ہے: فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر یہ تحقیق کیے بغیر کہ وہ اس سخت ضعف سے محفوظ ہے جو کہ اس پر عمل کرنے کی شرائط میں سے ہے، عمل کیا جائے گا۔ باوجود یہ کہ ضعف مطلق ضعف شدید کے منافی نہیں، بلکہ وضع کے بھی منافی نہیں، کیونکہ وہ دونوں ضعیف کی اقسام میں سے ہیں جیسا کہ اصطلاحات میں طے شدہ ہے۔ پھر کاش مجھے معلوم ہوتا اس حدیث کا ضعیف حدیث پر عمل کرنے سے کیا تعلق ہے، کیونکہ یہ تو وہ موقع ہے جس میں انسان کو کسی کام کے کرنے اور نہ کرنے کا اختیار ہو، اور جمعہ کے دن عرفات میں وقوف اس طرح نہیں ہے! آپ اس باطل حدیث کی نص، جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، میری کتاب ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ‘‘ رقم (۲۰۷) میں پائیں گے۔ جہاں ان علماء کا بھی ذکر ہے جنھوں نے ابن القیم رحمہ اللہ سے اس حدیث پر باطل کا حکم لگانے پر اتفاق کیا۔ تنبیہ: شیخ (ملا) القاری نے جو کہا کہ ’’فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا تمام علماء کے نزدیک معتبر ہے۔‘‘ صحیح نہیں، اس مسئلے میں جو اختلاف ہے آپ اسے ’’الأجوبۃ الفاضلۃ‘‘ میں دیکھ سکتے ہیں اگرچہ انہوں نے اس مسئلے کو کھل کر بیان نہیں کیا۔ اس مسئلے کے متعلق ’’صحیح الترغیب والترہیب‘‘ میں شیخ کا کلام ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’صحیح الترغیب والترہیب‘‘ (ص۴۷۔۶۰) میں فرمایا: ’’ضعیف حدیث پر عمل‘‘ یہ قاعدہ مطلق طور پر نہیں پھر یہ کہ وہ قاعدہ مزعومہ مطلق طور پر نہیں، بلکہ وہ دو مقامات پر مقید ہے، ان میں سے ایک حدیثی اور دوسرا فقہی ہے۔ [1] قید حدیثي:… رہی حدیثی قید تو وہ ان کا یہ قول ہے: ’’ضعیف حدیث‘‘ وہ بالاتفاق ایسے ضعیف کے ساتھ مقید ہے جس کا ضعف شدید نہ ہو، موضوع کو چھوڑو، جیسا کہ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے اپنے رسالے ’’تبیین العجب فیما ورد فی فضل رجب‘‘ میں اسے بیان کیا ہے، اس وقت وہ مجھے میری لائبریری میں نہیں ملا، میں اسے ان کے ثقہ شاگرد حافظ سخاوی کے واسطے سے ان سے نقل کرتا ہوں، انہوں نے اپنی علمی کتاب
Flag Counter