Maktaba Wahhabi

129 - 756
پھر یہ ابن مسعود سے صحیح اثر میرے اس قول کی تائید کرتا ہے جو میں نے ’’المقال‘‘ میں کہا ہے: ’’کسی مخصوص عدد میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا جسے الشارع الحکیم نے نہیں بتایا، بدعت ہے۔‘‘[1] ۱: مطلق نصوص کو اپنی رائے سے مقید کرنے کو جائز قرار دینے کے بارے میں شیخ (الحبشی) پر ردّ! فضیلۃ شیخ (الحبشی) نے اس کا ایک عجیب دلیل سے ردّ کیا ہے میں اس جیسے شخص سے اس کے صدور کا تصور نہیں کرسکتا! انہوں (ص۲۸۔۲۹) فرمایا: ’’میں کہتا ہوں تمھارا قول رد کیا جائے گا کیونکہ ذکر کے اکثار کے بارے میں ترغیب صحیح ثابت ہے جیسا کہ حدیث ہے: ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ‘‘ کثرت سے پڑھو۔‘‘ معین غایت تک کسی تقیید کے بغیر، حافظ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد‘‘ (۱۰/۸۷) میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا آپ نے فرمایا: ’’باقیات صالحات‘‘ کثرت سے کرو، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! وہ کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہ اور لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہ۔‘‘ (مسند احمد، مسند ابویعلی، ان دونوں کی اسناد حسن ہیں۔) [2] جواب: یہ حدیث … اگر صحیح ہے … اس میں صرف ذکر زیادہ کرنے پر ترغیب ہے، یہ ایسا امر ہے کہ اس کے متعلق کسی دو کا بھی اختلاف نہیں، پس اس میں اس بات پر دلیل کہاں ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز ہے کہ کسی ایسے عدد سے ذکر کرے جسے الشارع نے مقید نہ کیا ہو، تو وہ اپنی طرف سے اسے مقید کردے؟ یہ تو محض اپنی طرف سے شریعت سازی ہے جس کی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اجازت نہیں دی۔ اصول فقہ کے علم میں یہ بات طے شدہ ہے کہ جس چیز کو الشارع نے مطلق بیان کیا ہو اسے مقید کرنا جائز نہیں، جس طرح اس نے کسی چیز کو مقید کیا ہو تو اسے مطلق قرار دینا جائز نہیں اور (ان دونوں صورتوں میں) کوئی فرق نہیں، پس مطلق اپنے اطلاق پر جاری رہے گا اور مقید اپنی تقیید پر باقی رہے گا، اسی لیے امام محقق ابواسحاق شاطبی نے اپنی عظیم کتاب ’’الاعتصام‘‘ (۲/۹۴) میں فرمایا: ’’مطلق چیزوں میں تقیید کرنا، جس کی تقیید شرعی دلیل سے ثابت نہ ہو تو، وہ شریعت میں رائے (زنی کرنا) ہے۔‘‘ اور انہوں نے ’’الاعتصام‘‘ (۲/۱۴۰) میں ہی فرمایا: ’’فصل: بدعات اضافیہ میں سے جو حقیقت کے قریب ہیں: یہ کہ عبادت کی اصل مشروع ہو، مگر یہ کہ وہ
Flag Counter