۲:… حنفیہ کا مذہب ہے کہ ’’یہ مکروہ تحریمی ہے‘‘
اس معنی شرعی کے ساتھ کراہت سے مراد تحریم ہے حنفیہ نے اسی معنی کو بیان کیا ہے، ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمد نے اپنی کتاب ’’الآثار‘‘ (ص۴۵) میں بیان کیا:
’’ہم نہیں سمجھتے کہ قبر سے نکلی ہوئی مٹی سے کوئی زیادہ مٹی ڈالی جائے، اور ہم قبر کو پختہ کرنے یا اس کی لپائی کرنے یا اس کے نزدیک مسجد بنانے کو مکروہ جانتے ہیں۔‘‘
حنفیہ کے نزدیک جب کراہت مطلق طور پر ہو تو وہ تحریم کے لیے ہے، جیسا کہ وہ ان کے ہاں معروف ہے، اور ان میں سے ابن الملک نے اس مسئلے میں تحریم کی صراحت کی ہے۔
۳:…مالکیہ کا مذہب ہے کہ ’’وہ حرام ہے‘‘
امام قرطبی نے اپنی ’’تفسیر‘‘ (۱۰/۳۸) میں پانچویں حدیث ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
’’ہمارے علماء نے بیان کیا: یہ مسلمانوں پر حرام ہے کہ وہ انبیاء اور علماء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیں۔‘‘
۴:… حنابلہ کا مذہب ہے کہ ’’وہ حرام ہے‘‘
حنابلہ کا مذہب بھی تحریم ہے جیسا کہ ’’شرح المنتہی‘‘ (۱/۳۵۳) وغیرہ میں ہے، بلکہ ان میں سے بعض نے قبروں پر بنائی گئی مساجد میں نماز کے بطلان کی صراحت کی ہے اور انہیں گرادینے کے وجوب کی صراحت کی ہے، ابن القیم نے ’’زاد المعاد‘‘ (۳/۲۲) میں اس بیان کے سلسلے میں بیان کیا جو فقہ و فوائد کے حوالے سے غزوہ تبوک کو متضمن ہے، اور انھوں نے اسے اس مسجد ضرار کے قصے کے ذکر کرنے کے بعد بیان کیا جس میں نماز پڑھنے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منع فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گرادیا اور اسے جلادیا، انہوں نے کہا:
’’ایسی جگہوں کو جلانا اور گرانا جہاں اللہ اور اس کے رسول کی معصیت ہوتی ہو اسی ضمن سے ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ضرار کو جلایا اور اسے گرانے کا حکم فرمایا حالانکہ وہ مسجد ہے جہاں نماز پڑھی جاتی ہے، اور اس میں اللہ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، جبکہ اس کی تعمیر مومنوں کو نقصان پہنچانے اور ان کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے لیے تھی اور وہ منافقوں کا ٹھکانا تھا، ہر جگہ جس کی یہ حالت ہو تو امام/ حکمران [1] پر واجب ہے کہ وہ اسے معطل کرے، خواہ گرا کر یا جلا کر یا اس کی صورت بدل کر یا اسے اس چیز سے نکال کر جس کے لیے وہ وضع کی گئی۔ جب مسجد ضرار کی یہ حالت ہے تو پھر شرک کے اڈے
|