درمیان کوئی فرق نہیں، بلکہ ہر ایک کے لیے صرف اسی چیز سے دلیل ہے جو صحیح یا حسن حدیث کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہو۔‘‘
میں کہتا ہوں: دوسری صورت جس سے منذری رحمہ اللہ کے پیچھے بیان کردہ کلام سے احتمال ہوسکتا ہے، وہ ضعیف احادیث کو ان کی اسانید اور ان کا حال بیان کیے بغیر ذکر کرنا جب کہ ان میں سے موضوع روایات بھی ہوں، تو میرا اعتقاد یہ ہے کہ میں یہ تصور بھی نہیں کرسکتا کہ کوئی متقی عالم ایسی بات کرے، اس میں امام مسلم رحمہ اللہ کے کلام کہ ’’غیر عدول سے روایت کرنے سے بچنا چاہیے‘‘ میں بیان کردہ کتاب و سنت کے دلائل کی مخالفت ہے، نیز اس بارے میں احکام کی احادیث اور ترغیب و ترہیب کی احادیث کے درمیان کوئی فرق نہیں، اور امام مسلم کا گزشتہ کلام اس بارے میں بڑا واضح ہے۔
جو شخص ضعیف راوی سے روایت کرتا ہے اور وہ اس کا حال بیان نہیں کرتا، خواہ وہ ترغیب و ترہیب
کے بارے میں ہو، تو امام مسلم ایسے شخص کومجرم گردانتے ہیں
میں حدیث کے راویوں کے عیوب سے پردہ ہٹانے کے وجوب سے متعلق اہم بحث اور اس کے متعلق ائمہ کے اقوال ذکر کرنے کے بعد ان کے قول کی صراحت کروں گا، انہوں نے (۱/۲۹) فرمایا:
’’انہوں نے روایت کے ناقلین اور حدیث کے راویوں کی خامیوں سے پردہ ہٹانے کو اپنے اوپر لازم کرلیا اور اس میں جو بڑی سنگینی ہے اس کے متعلق فتویٰ دیا، امر دین کے بارے میں جو روایات ہیں ان سے حرام یا حلال یا امر یا نہی یا ترغیب یا ترہیب ثابت ہوتی ہے، تو جب ان کا راوی صدق و امانت کا سرچشمہ نہیں، پھر اس سے وہ شخص روایت لیتا ہے جو اسے پہچانتا ہے اور وہ اپنے علاوہ کسی ایسے شخص کو جو اس سے متعلق نہیں جانتا، اس کے نقائص بیان نہیں کرتا تو وہ اپنے اس فعل کی وجہ سے گناہ گار ہے، عام مسلمانوں کو دھوکا دینے والا ہے، جو شخص یہ روایات سنتا ہے وہ اسے اطمینان نہیں دلاتا کہ وہ ان پر عمل کرے یا اس کے بعض حصے پر عمل کرے، ہوسکتا ہے کہ وہ یا ان میں سے اکثر جھوٹی روایات ہوں، ان کی کوئی اصل نہ ہو، مزید برآں یہ کہ ثقہ اور اہل قناعت راویوں سے مروی صحیح روایات ان سے کہیں زیادہ ہیں کہ کسی ایسے شخص سے نقل کرنے میں لاچاری ظاہر کی جائے جو کہ ثقہ نہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ ہم نے ان ضعیف احادیث اور مجہول اسانید کے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے اس کے باوجود بھی لوگ اس طرف مائل ہوں گے اور اس میں جو کمزوری اور ضعف ہے اس کی معرفت کے بعد بھی اسے روایت کرنے کی طرف توجہ دیں گے، البتہ صرف وہی شخص اسے روایت کرے گا اور اسے اہمیت دے گا جو اس کے ذریعے عوام کے ہاں فخر کرنا چاہتا ہو، تاکہ یوں کہا جائے کہ فلاں شخص
|