کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔‘‘
۱۵۹: گم نام فوجی یا گم نام شہید کی قبر کی زیارت:
’’أحکام الجنائز‘‘ (۳۲۷/۱۵۹)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۰۶/۱۵۹)۔
۱۶۰: عبادات (جیسے نماز اور قرآن خوانی) کا مسلمانوں کے مُردوں کو ثواب پہنچانا:
(مسئلہ ۱۱۴ پر (ص: ۲۱۹۔ ۲۲۳) تعلیق دیکھیں) [1] ’’أحکام الجنائز‘‘ (۳۲۷/ ۱۶۰)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۰۶/۱۶۰)۔
مسلمانوں کے مُردوں کو عبادات کا ثواب پہنچانے کے مسئلے کی تفصیل
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’احکام الجنائز’‘(ص۲۱۹۔۲۲۲) میں بیان کیا: شوکانی نے ’’نیل الاوطار‘‘ (۴/۷۹) میں فرمایا:
باب کی احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ بیٹے کی طرف سے صدقے کا ثواب اس کے والدین کو ان کی وفات کے بعد پہنچتا ہے، خواہ انھوں نے وصیت نہ کی ہو، ان احادیث سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی﴾ (انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے سعی (کوشش) کی ہے۔) کے عموم کی تخصیص کی جائے گی، لیکن احادیث باب میں لڑکے کی طرف سے صدقہ پہنچنے کا ذکر ہے اور یہ ثابت ہے کہ انسان کی اولاد اس کی سعی (کوشش) ہے، پس دعویٰ تخصیص کی کوئی حاجت نہیں، رہے وہ جو اولاد کے علاوہ ہیں تو قرآنی عموم سے ظاہر ہے کہ ان کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا، لہٰذا اس پر ٹھہرا جائے گا، حتیٰ کہ کوئی دلیل آئے جو اس کی تخصیص کا تقاضا کرتی ہو۔‘‘
میں نے کہا: یہ وہ حق ہے جس کا علمی قواعد تقاضا کرتے ہیں، آیت اپنے عموم پر ہے، کہ صدقہ اور دیگر عمل کا ثواب اولاد کی طرف سے والد کو پہنچتا ہے، کیونکہ وہ اس کی سعی (کوشش) سے ہیں، جبکہ غیر اولاد کا مسئلہ الگ ہے، لیکن نووی اور دیگر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ صدقہ میّت کی طرف سے واقع ہوتا ہے اور اس کا ثواب اسے پہنچتا ہے، انھوں نے اس طرح کہا: ’’المیّت‘‘ انھوں نے اسے مطلق رکھا، اور اسے والد کے ساتھ مقید نہیں کیا، اگر یہ اجماع صحیح ہو تو وہ ان عمومات کے لیے تخصیص کرنے والا ہوگا جن کی طرف شوکانی نے اشارہ کیا ہے جو کہ صدقہ کے متعلق ہے اور جو اس کے علاوہ ہے وہ عموم میں داخل رہے گا، جیسے روزہ، قراء ت قرآن اور اس طرح کی عبادات، لیکن میں دو امور کی وجہ سے اس مذکور اجماع کے صحیح ہونے کے حوالے سے بڑے شک میں ہوں۔
|