ہو۔ اس قول میں علم اصول فقہ کی غایت کو ختم کرنا ہے اور اسی طرح شیخ کے قول سے علم حدیث کی غایت کو ختم کرنا ہے، اور (ان دونوں میں) کوئی فرق نہیں۔
خلاصۂ قول: ’’التصحیح و التضعیف‘‘ میں شرط صرف اہلیت ہے، رہا حفظ تو وہ ایک دوسری چیز ہے، اگر پایا جائے تو وہ نور علی نور ہے، ورنہ وہ کوئی شرط نہیں جیسا کہ ائمہ کے مذکورہ بالا کلام نے اس کے متعلق بتایا ہے۔ واللہ الموفق، لا رب سواہ
۳: بعض مؤلفین کی بدعات
ہمارے شیخ البانی رحمہ اللہ نے اپنی عظیم کتاب: ’’النصیحۃ‘‘ (ص۴۶۔۴۷) میں فرمایا:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ترمذی وغیرہ کی روایت میں فرمایا:
(( اَلدُّنْیَا مَلْعُونَۃٌ، مَلْعُونٌ مَا فِیْھَا: اِلَّا ذِکْرَ اللّٰہِ وَ مَا وَالَاہُ۔))
’’دنیا ملعون ہے اور اس میں جو کچھ ہے وہ ملعون ہے، سوائے اللہ کے ذکر کے اور جو اس (ذکر) کے متعلق ہے۔‘‘
میں کہتا ہوں: [1] جس طرح ابن القیم رحمہ اللہ نے اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جزم کے ساتھ منسوب کیا ہے، اور یہی درست ہے، جبکہ (الہدام) نے اس کے برعکس (۱/۵۶) کہا:
’’حدیث ضعیف ہے، ہو سکتا ہے وہ سلف میں سے کسی کا قول ہو۔‘‘
میں کہتا ہوں: ’’ہو سکتا‘‘ کو فلاں ستارے کے پاس رکھو، یہ کسی بدعتی کا قول ہے سلف میں سے کسی نے یہ نہیں کہا، اگر خلف میں سے کسی نے کہا ہے، تو اس لائق ہے کہ اسے کوئی اہمیت نہ دی جائے۔
۴: ان میں سے بعض کی طرف سے اس کے متعلق مختلف تعبیرات جسے وہ حسن قرار دیتے ہیں
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’النصیحۃ‘‘ (ص۵۳) میں بیان کیا:
اس کے متعلق جسے وہ حسن قراردیتا ہے مشاہدے میں سے ہے کہ وہ مختلف تعبیرات کے ذریعے اس کے متعلق تعبیر کرتا ہے:
اول: ’’حدیث حسن ہے‘‘ جیسا کہ یہاں ہے۔[2]
دوم: اس کی مثل، مگر یہ کہ وہ اس کے بارے میں شک ڈالتا ہے، وہ (۷۰، ۱۳۰) کہتا ہے:’’ان شاء اللہ تعالیٰ۔‘‘
سوم: ’’اس کی اسناد حسن ہے۔‘‘ (ص ۷۷،۲۱۲،۲۲۴،۲۷۳،۵۱۴)
|