یہ بتا دیا کہ وہ اس کے خلاف ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا۔
خلاصۂ کلام
فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل جائز نہیں، مرجوع تفسیر کی بنا پر اسے اختیار نہیں کہا جاسکتا تب وہ اصل کے خلاف ہے اور اس پر کوئی دلیل نہیں، اس کے متعلق کہنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مذکورہ شرائط کو نصیحت حاصل کرنے کی آنکھ سے دیکھے۔ اور وہ اپنے عمل میں ان کی پابندی کرے، واللہ الموفق۔
پھر یہ کہ قول مخالف کے مفاسد میں سے ہے، کہ جب ہم نے اسے ترجیح دی کہ وہ مخالفین کو فضائل کے دائرے سے بڑھا کر احکام شریعت میں اس سے استدلال کرنے تک پہنچا دے گا، بلکہ وہ عقائد بھی اسی (ضعیف حدیث) سے اخذ کریں گے اس کے متعلق میرے پاس بہت سی مثالیں ہیں، لیکن میں ان میں سے صرف ایک مثال پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔ ایک حدیث ہے: ’’جب نمازی سترے کے لیے کوئی چیز نہ پائے تو وہ اپنے آگے ایک لکیر ہی کھینچ لے۔‘‘ اس کے باوجود کہ بیہقی اور نووی ان حضرات میں سے ہیں جنھوں نے اس کے ضعیف ہونے کی صراحت کی ہے، لیکن انہوں نے اپنے امام شافعی کے خلاف اس پر عمل کرنے کی اجازت بھی دی ہے، جب ہم حدیث مذکور پر کلام کریں گے تو اس کے متعلق ان دونوں کے قول کی جانچ پڑتال ہوگی۔
اور جو شخص اس اہم بحث کے متعلق مزید تفصیل چاہتا ہے وہ ’’صحیح الترغیب‘‘ (۱/۱۶۔۳۶) کے مقدمے کا مطالعہ فرمائے۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’صحیح الجامع‘‘ (ص۴۹۔۵۵) کے مقدمے میں فرمایا:
دوسری بات ان کا قول کہ ’’اس کے باوجود کہ فضائل اعمال میں محدثین اور اصولیین کے نزدیک ضعیف حدیث پر مقررہ شرائط کے ساتھ عمل کیا جاتاہے۔‘‘
پس ہم اس پر دو مؤاخذے کرتے ہیں:
(۱) پہلا مؤاخذہ…: بہت سے لوگ اس مثل سے اطلاق کا مفہوم سمجھتے ہیں کہ علماء کے نزدیک عمل مذکور میں کوئی اختلاف نہیں، حالانکہ اس طرح نہیں ہے، بلکہ اس بارے میں اختلاف معروف ہے، جیسا کہ وہ مصطلح الحدیث کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے، جیسے علامہ شیخ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ کی ’’قواعد التحدیث‘‘ انہوں نے اس میں (ص ۱۱۳ پر) ائمہ کی ایک جماعت سے نقل کیا ہے کہ وہ ضعیف حدیث پر عمل کو مطلق طور پر نہیں سمجھتے، جیسے ابن معین، بخاری، مسلم اور ابوبکر بن العربی الفقیہ ودیگر۔ اور ان میں سے ابن حزم ہیں، انہوں نے ’’الملل والنحل‘‘ میں فرمایا: ’’مشرق و مغرب والوں نے اسے روایت کیا یا بہت سے راویوں نے بہت سوں سے روایت کیا یا ثقہ نے ثقہ سے روایت کیا، حتیٰ کہ وہ (سند) نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جائے، مگر یہ کہ سند میں ایک ایسا آدمی ہے
|