بنائیں، جب وہ کہے: ’’قد قامت الصلوۃ‘‘ تو اللہ اکبر کہے۔[1] (امام) محمد نے کہا: ہم اس پر عمل کرتے ہیں، اور وہ ابو حنیفہ کا قول ہے۔‘‘
میں نے کہا: بہت سے حنفی مقلد، خاص طور پر عجمی علاقوں میں، اسی پر قائم ہیں، اس میں سنت محمدیہ کا ضیاع ہے جیسا کہ اس طرف ابھی اشارہ بیان ہوا ہے، اور اس سے ملتی جلتی بات بعض ائمہ کا صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرنا ہے: ’’برابر ہو جاؤ، برابر ہو جاؤ۔‘‘
یہ نصیحت ہے، اور نصیحت مومنوں کو نفع پہنچاتی ہے۔
۲… قیام [2] میں دو قدموں کے درمیان چار انگلیوں کا فاصلہ
پس اگر (اس فاصلے سے) زیادہ کیا تو وہ مکروہ ہے، جیسا کہ ’’الفقہ علی المذاھب الاربعۃ‘‘ (۱/۲۰۷) میں اس کی تفصیل آئی ہے، سنت میں اس کی کوئی اصل نہیں، وہ محض ایک رائے ہے، اور اگر صحیح ہو تو پھر اس کی امام و منفرد پر تقیید واجب ہے حتی کہ وہ اس صحیح سنت کے معارض نہ ہو! جیسا کہ قواعد اصولیہ اس کا تقاضا کرتے ہیں۔
خلاصۂ قول…: میں مسلمانوں سے۔ اور خاص طور پر ائمہ مساجد سے اپیل کرتا ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع پر حریص ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے احیاء کی فضیلت حاصل کرنا چاہتے ہیں،کہ وہ اس سنت پر عمل کریں، [3] اور اس کے لیے کوشش کریں، لوگوں کو اس کی طرف دعوت دیں، حتی کہ وہ سب اس پر اکٹھے ہو جائیں، اور اس وجہ سے تہدید (دھمکی) سے بچ جائیں: ’’یا پھر اللہ تمہارے دلوں میں پھوٹ ڈال دے گا۔‘‘
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اسے ’’الصحیحۃ‘‘ (۱/۷۳) میں بیان کیا ہے۔
۳… زبان سے نیت کرنا
ہمارے شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے ’’حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ (ص۴۹) میں بیان کیا: جان لیجیے کہ احرام میں یا اس کے علاو دیگر عبادات جیسے طہارت و صلاۃ اور روزہ وغیرہ میں زبان سے نیت کرنا مشروع نہیں، نیت تو صرف دل سے ہوتی ہے، اور اسے زبان سے ادا کرنا بدعت ہے، ’’اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے۔‘‘
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’صفۃ الصلوۃ‘‘ (ص۸۶) میں بیان فرمایا:
|