۱۴: بعض مواقع کی مناسبت سے مساجد میں بہت سی برقی قندیلیں روشن کرنا
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الثمر المستطاب فی فقہ السنۃ والکتاب‘‘ (۲/۵۹۷۔۶۰۰) میں بیان کیا:
… لوگوں نے بعض مواقع اور تہواروں کی مناسبت سے بہت سی مساجد میں بہت زیادہ برقی قندیلیں روشن کرنا جو معمول بنالیا ہے … جیسے رجب کا پہلا جمعہ، پندرہ شعبان کی شب، [1] رمضان کا پورا مہینہ اور دونوں عیدیں … حرام اور ممنوع ہے، خاص طور پر عیدین کے موقع پر، کیونکہ ان دونوں مواقع پر وہ قندیلیں نصف النہار کے قریبی وقت تک جلتی رہتی ہیں!
ابن الحاج رحمہ اللہ نے نصف شعبان کی شب کی بدعات پر گفتگو کرتے ہوئے ’’المدخل‘‘ (۱/۳۰۸) میں فرمایا:
’’کیا تم ان کے اس فعل کو نہیں دیکھتے کہ وہ کس قدر خلاف معمول روشنی کرتے ہیں حتیٰ کہ وہ مسجد میں ہر اس چیز کو روشن کردیتے ہیں جو روشن ہو سکتی ہو، حتیٰ کہ انہوں نے ستونوں اور گیلریوں میں رسیاں لگا رکھی ہیں اور ان میں قندیلیں لگاتے ہیں اور پھر انھیں روشن کرتے ہیں اور وہ سبب بیان ہوچکا جس وجہ سے علماء رحمہم اللہ نے مصحف، منبر اور دیواروں پر ہاتھ پھیرنے کو ناپسند کیا ہے… اسی طرح دوسری چیزیں ہیں، اصنام کی پوجا کی ابتداء میں یہی سبب تھا اور ظاہر میں یہ زیادہ قندیلیں روشن کرنا آتش پرستی کے مشابہ ہے خواہ وہ اس کا اعتقاد نہ رکھیں؟ کیونکہ آتش پرست اس کو جلاتے تھے حتیٰ کہ جب وہ خوب روشن ہوجاتی تو وہ اس کی پرستش کی نیت سے اس کے گرد اکٹھے ہوجاتے، جبکہ شارع صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہ نے مسلمانوں کو ادیان باطلہ کے پیروکاروں کے فعل سے مشابہت اختیار نہ کرنے کی ترغیب دلائی ہے حتیٰ کہ ان کے مخصوص لباس سے ترک مشابہت کی ترغیب دی ہے، اس اجتماع کے ساتھ بہت سی خواتین، مرد اور چھوٹے بچے جو غالباً اپنے بول و براز سے مسجد کو پلید کردیتے ہیں، جمع ہوجاتے ہیں، اور بہت زیادہ شور و شغب اور لغویات اس ضمن سے جو رجب کی ستائیسویں شب سے زیادہ شدید اور گراں ہوتی ہیں اور اس کے مفاسد بیان ہوچکے ہیں، اور جو اس رات میں ہوتے ہیں وہ
|