مصیبت میں مبتلا ہو اور اس نے فلاں ولی یا فلاں صالح شخص سے مدد طلب کی اور اس کا نام لے کر پکارا تو وہ اسی وقت حاضر ہوگیا یا وہ خواب میں اس کے پاس آیا، تو اس نے اس سے مدد طلب کی اور اس کی مراد پوری ہوگئی۔
یہ اور اس جیسے دیگر لاعلم نہیں جانتے کہ یہ… اگر یہ واقعہ صحیح ہے… تو اللہ عزوجل کی طرف سے مشرکوں اور بدعتیوں کے لیے استدراج، اس کی طرف سے ان کے لیے ایک آزمائش اور اس کی طرف سے ان کے ساتھ ایک چال ہے، تاکہ ان کے کتاب و سنت سے اعراض کرنے، اپنی خواہشات اور اپنے شیاطین (سرداروں) کی اتباع کرنے پر انھیں پورا پورا بدلہ مل جائے۔
اور انہوں نے (ص:۲۶ پر) فرمایا:
اس سب سے مقصود یہ ہے کہ ہم جان لیں کہ تجربے اور یہ اطلاعات دینی اعمال کی مشروعیت جاننے کا صحیح ذریعہ نہیں، بلکہ اس کے لیے واحد مقبول و بے نظیر ذریعہ وہ شرعی حکم ہے جس کا کتاب و سنت میں وجود ہو، اس کے علاوہ اور کوئی نہیں۔
انہوں نے (ص:۳۰ پر) فرمایا:
خلاصہ یہ ہے کہ کونی اسباب کے متعلق یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اسباب شرعی ہیں، ان کا (اس طرح) اثبات اور انہیں اپنانا جائز نہیں اِلایہ کہ شریعت میں اس کا جائز ہونا ثابت ہوجائے۔
اور (ص:۳۰ پر) یہ بھی فرمایا:
رہے شرعی وسائل، تو ان کو اپنانے کے جواز کے لیے یہی کافی نہیں کہ شارع حکیم نے ان سے منع نہیں فرمایا، بہت سارے لوگوں کا یہی خیال ہے، ان کے متعلق بھی شرعی دلیل سے ثبوت ضروری ہے جو ان کی مشروعیت اور استحباب کو مستلزم ہو۔‘‘[1]
۱۲: عبادات توقیفی ہوتی ہیں
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’صلاۃ التراویح‘‘ میں فرمایا:
’’عبادات میں بنیادی بات یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نص کے ذریعے ثابت ہوتی ہیں، اور یہ ایسی بنیاد ہے جس پر تمام علماء کا اتفاق ہے، ہم نہیں سمجھتے کہ کوئی مسلمان عالم اس بارے میں اختلاف کرتا ہو، اگر یہ اصول نہ ہو، تو پھر کسی بھی مسلمان کے لیے جائز ہوتا کہ وہ سنتوں کی رکعتوں کی تعداد بلکہ فرائض میں بھی کہ جن کی تعداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور ان پر استمرار سے ثابت ہے، میں اضافہ کرلیتا اور وہ یہ اس خیال سے کرتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں اضافہ کرنے سے نہیں روکا! اور اس (خیال) کا باطل ہونا بالکل واضح ہے، لہٰذا اس کے
|