کسی اور نے کسی اور میں ذکر کیا، اس پر عمل کرنا واجب ہے، رہا علی کا قول مذکور، [1] تو اس پر محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ ضعیف ہے، وہ قابل اعتماد نہیں۔
۲… نمازی کے لیے دورانِ نماز میں کعبہ کی طرف دیکھنا مستحب ہے جبکہ وہ اس کے قریب ہو
قاسمی رحمہ اللہ نے ’’اصلاح المساجد‘‘ (ص۹۲) میں بیان کیا:
’’نمازی کے لیے مسنون ہے کہ وہ اپنی نظر اپنے سجدے کی جگہ پر ہی رکھے… اور جب وہ کعبہ کے قریب ہوتو اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ اس کی طرف دیکھے…
شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’اصلاح المساجد‘‘ (ص:۹۲) کے حاشیے میں فرمایا: ’’سنن صحیحہ میں اس پر کوئی دلیل نہیں۔‘‘
۳… امام کا فاتحہ کے بعد اتنی دیر خاموش رہنا کہ مقتدی سورۂ فاتحہ پڑھ سکے
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘[2] (۲/۲۶) میں حدیث رقم (۵۴۷) کے تحت بیان کیا:
…اسی لیے بعض محققین نے اس کی صراحت کی ہے کہ لمبا سکتہ بدعت ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ’’فتاوی‘‘ (۲/۱۴۶۔۱۴۷) میں بیان کیا:
’’احمد نے اسے مستحب قرار نہیں دیا کہ امام مقتدیوں کی قراءت کے لیے سکتہ (کچھ وقت کے لیے خاموشی اختیار) کرے، لیکن ان کے بعض اصحاب نے اسے مستحب قرار دیا ہے، اور معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر فاتحہ کی قراءت کی گنجائش کے مطابق سکتہ فرمایا کرتے تھے، تو یہ بھی اس ضمن میں سے ہوتا جس کے نقل کرنے پر ہمتیں اور اسباب وافر تھے، لیکن کسی ایک نے اسے نقل نہیں کیا! تو معلوم ہوا کہ یہ نہ تھا اور یہ بھی کہ اگر سارے صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھا کرتے تھے، پہلے سکتہ میں، یا دوسرے میں تو یہ بھی اسی ضمن سے ہوتا جس کے نقل کرنے میں ہمتیں اور اسباب وافر تھے، تو پھر کس طرح صحابہ میں سے کسی ایک نے اسے نقل نہ کیا کہ وہ دوسرے سکتہ میں سورۂ فاتحہ پڑھا کرتے تھے، مزید یہ کہ اگر یہ شرعاً تھا تو دیگر لوگوں کی نسبت صحابہ اسے جاننے کے زیادہ حق دار تھے، معلوم ہوا کہ وہ (سکتہ) بدعت ہے۔‘‘
میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طویل سکتے کے عدم کی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول تائید کرتا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے اللہ اکبر کہتے تو آپ تھوڑی دیر خاموش رہتے تھے، میں نے عرض کیا، اللہ
|