وہ بدعت ہے، اور اس کی صورت، جیسا کہ انہوں نے ذکر کیا، کہ وہ اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھے، کہ وہ اس (بائیں ہاتھ) کی کلائی کو چھنگلی انگلی اور انگوٹھے سے پکڑے اور باقی تین انگلیاں پھیلائے۔ جیسا کہ ’’الدر‘‘ (۱/۴۵۴) پر ابن عابدین کے حاشیے میں ہے، آپ بعض متاخرین کے اس کے متعلق قول سے غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔‘‘
اور شیخ رحمہ اللہ نے ’’تلخیص صفۃ الصلاۃ‘‘ (ص۱۳) میں بیان کیا:
اور رہا وہ جو بعض متاخرین نے ’’وضع و قبض‘‘ کے درمیان جمع و تطبیق کی ہے کہ وہ ایک ایسی چیز ہے جس کی کوئی اصل نہیں۔
اور ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’المشکاۃ‘‘ (۱/۲۴۹) میں حدیث رقم (۷۹۸)[1] کے تحت بیان کیا:
اور یہ کیفیت اس بات کی پابندی چاہتی ہے کہ ہاتھ سینے پر رکھے جائیں، جب تم اس پر غور کرو گے اور اس پر عمل کرو گے (تو یہی کیفیت (سینے پر ہاتھ رکھنے والی) بنے گی) اگر تم چاہو تو تجربہ کرلو۔ اور یہ جان لینا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سینے کے علاوہ کہیں اور ہاتھ باندھنا صحیح ثابت نہیں، جیسا کہ یہ حدیث ہے: ’’نماز میں ہتھیلی (ہاتھ) پر ہتھیلی رکھ کر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔‘‘ میں نے اس کا ’’ضعیف ابی داوٗد‘‘ (۱۲۹۔ ۱۳۱) [2] میں ضعف بیان کیا ہے۔
صدیق حسن خان نے ’’الروضۃ الندیۃ‘‘ (۱/۲۸۸) میں بیان کیا:
شیخ ابن ہمام نے بیان کیا: ’’کوئی ایک صحیح حدیث ثابت نہیں جو سینے کے نیچے ہاتھ باندھنے کو واجب کرتی ہو…‘‘
ہمارے شیخ نے ’’التعلیقات الرضیۃ علی الروضۃ الندیۃ‘‘ (۱/۲۸۸) میں صدیق حسن خان کے کلام کے اس جملے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
میں کہتا ہوں: نہیں، بلکہ امام احمد کے نزدیک قوی سند سے جو وارد ہے وہ اس پر صریح دلالت کرتا ہے کہ سنت سینے پر ہاتھ باندھنا ہے، [3] جیسا کہ علامہ محقق عبدالعظیم آبادی نے اسے ’’غنیۃ الالمعی‘‘ میں اور ان کے علاوہ
|