’’أحکام الجنائز‘‘ (۳۳۶/۲۴۰)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۱۱/۲۴۰)۔
۲۴۱: اس کا یوں کہنا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی امت کو دیکھنے اور آپ کے ان کے احوال اور ان کی نیتوں اور حسرتوں وغیرہ کو جاننے کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت و حیات میں کوئی فرق نہیں: [1]
’’أحکام الجنائز‘‘ (۳۳۶/۲۴۱)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۱۱/۲۴۱)۔
۲۴۲: قبروں پر شاخیں اور پھول وغیرہ رکھنے کی بدعت:
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ دو قبروں پر کھجور کی شاخ رکھنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ’’شاید کہ ان دونوں کے عذاب میں تخفیف کردی جائے جب تک یہ دونوں شاخیں خشک نہ ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے۔
آپ رحمہ اللہ نے ’’أحکام الجنائز‘‘ (ص۲۵۳۔۲۵۸) میں فرمایا: بے شک وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، [2] اس کی دلیل ہے کہ سلف کے ہاں اس پر عمل جاری نہیں ہوا اور دیگر امور کا بیان آئے گا۔
خطابی رحمہ اللہ نے ’’معالم السنن‘‘ (۱/۲۷) میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرمایا:
’’بے شک یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اثر سے برکت حاصل کرنے اور ان دونوں سے عذاب کی تخفیف کے متعلق آپ کی دعا کے ضمن میں ہے، گویا کہ انھوں نے ان دونوں کے عذاب میں تخفیف کی حد ان دونوں (شاخوں) میں تازگی کے باقی رہنے کو قرار دیا اور یہ اس لیے نہیں کہ یہ (عذاب میں تخفیف) تازہ شاخ کی وجہ سے ہے اور خشک اس معنی میں نہیں ہے، بہت سے علاقوں میں عمومی طور پر لوگ اپنے مردوں کی قبروں پر کھجور کے پتے رکھتے ہیں اور میں نے انھیں دیکھا کہ ان کا یہی موقف ہے اور جس کام میں وہ منہمک اور مشغول ہیں اس کی کوئی وجہ نہیں۔‘‘
شیخ احمد شاکر نے ترمذی (۱/۱۰۳) پر اپنی تعلیق میں اس کے بعد فرمایا:
|