’’امام خطابی نے ٹھیک کہا، اس عمل پر اصرار کے حوالے سے اضافہ ہی ہورہا ہے جس کی کوئی اصل نہیں، انھوں نے اس میں غلو کیا، خاص طور پر مصر کے علاقوں میں اور یہ سب عیسائیوں کی تقلید و نقالی میں کرتے ہیں، حتیٰ کہ یہاں تک پہنچ گئے کہ وہ قبروں پر پھول رکھتے ہیں اور آپس میں ان کا ہدیہ پیش کرتے ہیں اور لوگ انھیں اپنے رشتے داروں اور اپنے جاننے والوں کی قبروں پر ان کے لیے دعا کے طور پر اور زندوں کو خوش کرنے کے لیے رکھتے ہیں (پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں)، حتیٰ کہ یہ حکومتی ’’پروٹوکول‘‘ میں ایک مروجہ طریقے سے مشابہ ایک معمول بن گیا ہے، آپ مسلمانوں کے بڑوں (یعنی بڑے لیڈروں) کو دیکھیں گے کہ جب وہ یورپ کے کسی ملک میں جاتے ہیں تو وہ ان کے بڑے لوگوں کی قبروں یا کسی ایسی قبر پر جاتے ہیں جسے وہ گمنام سپاہی کا نام دیتے ہیں اور وہ اس پر پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں اور ان میں سے بعض مصنوعی پھول رکھتے ہیں جن میں کوئی تازگی نہیں ہوتی اور وہ انگریزوں کی تقلید میں اور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی اتباع میں ایسا کرتے ہیں اور علماء بھی عام لوگوں کی مانند ان کے اس فعل پر کوئی اعتراض نہیں کرتے، بلکہ آپ انھیں اپنے مُردوں کی قبروں پر یہ پھولوں کی چادریں چڑھاتے ہوئے دیکھیں گے، مجھے معلوم ہے کہ اکثر اوقاف جنھیں خیراتی اوقاف کا نام دیا جاتا ہے ان کی ترقی ان پھولوں کی پتیوں پر موقوف ہے جو قبروں پر رکھے جاتے ہیں، یہ سب بدعات و منکرات ہیں جن کی دین میں کوئی اصل نہیں، اور نہ کتاب و سنت میں اس کی کوئی سند ہے، اہل علم پر واجب ہے کہ وہ ان کا انکار کریں اور یہ کہ جس قدر ہوسکے ان عادات کا قلع قمع کریں۔‘‘
میں نے کہا: قبر پر شاخ رکھنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تخصیص کی اس سے بھی تائید ہوتی ہے کہ تخفیف عذاب اس شاخ کی تازگی کی وجہ سے نہیں ہوئی اس کی کئی وجوہات ہیں:
ا: صحیح مسلم میں (۸/۲۳۱۔۲۳۶) جابر رضی اللہ عنہ کی روایت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں فرمایا:
’’میں دو قبروں کے پاس سے گزرا، انھیں عذاب ہورہا تھا، پس میں نے پسند کیا کہ میری شفاعت کی وجہ سے ان دونوں سے عذاب ٹال دیا جائے جب تک یہ دونوں شاخیں تازہ رہیں۔‘‘
یہ اس میں صریح ہے کہ عذاب کا ٹل جانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور آپ کی دعا کی وجہ سے تھا نہ کہ شاخ کے تازہ ہونے کی وجہ سے، خواہ جابر کا یہ قصہ ہو وہ ابن عباس کے قصے کی طرح ہے، جیسا کہ عینیودیگر نے اسے ترجیح دی ہے یا اس کے علاوہ ہو، جیسا کہ حافظ نے اسے ’’الفتح‘‘ میں ترجیح دی ہے: خواہ اوّل احتمال پر ہو تو وہ ظاہر ہے، خواہ دوسرے احتمال پر ہو؛ کیونکہ نظر صحیح یہ تقاضا کرتی ہے کہ دونوں قصوں میں دونوں کے درمیان مشابہت موجود ہونے کی وجہ سے ایک علت ہو، کیونکہ میّت سے عذاب کی تخفیف کے لیے شاخ کا گیلا پن باعث بننا اس
|