یہ ضعیف حدیث ان احادیث صحیحہ کے عموم کے ردّ کے بارے میں ایک شبہہ کو پھیلانے والی ہے کہ جن میں ہے: ’’ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ وہ اس بارے میں اس (ضعیف روایت) میں مذکور اس قول کو تھامے ہوئے ہیں:
(( وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَۃً ضَلَالَۃً۔))
’’جس نے بدعت ضلالہ (گمراہ بدعت) جاری کی۔‘‘
اگر یہ صحیح ہے تو اس کا کوئی مفہوم نہیں، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے:
﴿لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً﴾ (آل عمران:۱۳۰)
’’سود کو بڑھا چڑھا کر (دوگنا چوگنا کرکے) نہ کھاؤ۔‘‘
اور اس کی تفصیل امام شاطبی کی کتاب ’’الاعتصام‘‘ میں موجود ہے۔[1]
۴… حدیث: ’’ہر بدعت گمراہی ہے‘‘ کی تشریح
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’مختصر صحیح مسلم‘‘ (رقم :۴۱۰) کے حاشیے میں فرمایا:
یہ (حدیث) اپنے عموم پر ہے، اس پر مطلق طور پر کوئی تخصیص نہیں آئی، اس مؤقف کے خلاف جو آج بہت سے لوگ گمان کرتے ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی امر پایا جائے جس کی شرعیت اور اس کے وجوب پر شرعی دلیل قائم ہوجائے تو پھر وہ کسی اعتبار سے بدعت کے زمرے میں نہیں آتی، اس اہم بحث کی تفصیل امام شاطبی رحمہ اللہ کی کتاب ’’الاعتصام‘‘ اور اس کتاب کی شرح للصدیق میں بھی موجود ہے۔
اور ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’کلمۃ الإخلاص‘‘ (ص۲۱۔۲۲) میں فرمایا:
یہ ممکن نہیں کہ یہ حدیث مخصوص عام میں سے ہو۔ جیسا کہ بعض متاخرین بیان کرتے ہیں اور اس کے بہت سے اسباب ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں: ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی جو اس کی تخصیص کرتی ہو۔ ان میں سے جس کے متعلق انہیں وہم ہے کہ وہ تخصیص کرنے والی ہے تو وہ اس طرح نہیں ہے، بلکہ اس سے جو صحیح ثابت ہوتا ہے وہ اس سے ہے جو اسے اس خصوص کے ساتھ لاتی ہے، تو وہ بعض نئے وسائل کے استحسان کی دلیل ہے، وہ کبھی ایسے امور لے آتے ہیں جو نص کے ذریعے مشروع ہیں، پس یہ وسائل وہ ہیں جو تقسیم کو پانچ اقسام میں منقسم کرنے کو قبول کرتے ہیں، نہ کہ دینی بدعت، اور یہ اسی طرح ہے جیسے کہا جاتا ہے: ’’جس چیز کے بغیر واجب کی ادائیگی نہ ہوتی ہو تو وہ چیز بھی واجب ہوتی ہے۔‘‘ جیسے قرآن کی جمع و تدوین اور کتابوں کی تصنیف وغیرہ، یہ سب مشروع وسائل میں
|