فرماتے جو ان کو اور ان کے ساتھیوں کو قرآن سناتا جبکہ وہ غور سے سنتے تھے، کبھی وہ ابو موسیٰ کو حکم فرماتے اور کبھی عقبہ بن عامر کو حکم فرماتے۔ حافظ ابن رجب نے اسے ’’جامع العلوم والحکم‘‘ (ص۲۵۰) میں روایت کیا ہے، پھر انہوں نے بیان کیا:
’’حرب نے ذکر کیا کہ انہوں نے دمشق، حمص، مکہ اور بصرہ والوں کو دیکھا وہ صبح کی نماز کے بعد قرآن پڑھنے کے لیے جمع ہوتے تھے، لیکن شام والے مجموعی طور پر بلند آواز سے ایک ہی سورت پڑھتے تھے، مکہ اور بصرہ والے اکٹھے ہوتے ان میں سے کوئی ایک دس آیات پڑھتا اور باقی لوگ خاموش رہتے تھے، پھر دوسرا دس آیات پڑھتا حتی کہ اس طرح کرتے ہوئے فارغ ہو جاتے، حرب نے کہا: یہ سب اچھا اور عمدہ ہے لیکن مالک نے شام والوں پر اس کا اعتراض کیا ہے۔‘‘
میں کہتا ہوں: مالک نے جس پر اعتراض کیا ہے وہ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ حق ہے، کیونکہ اس میں لوگوں نے سنت کی مخالفت کی ہے جیسا کہ بیان ہوا۔
۲: سورۃ القریش کی قراءت کا اس اعتقاد کے ساتھ استحباب کہ وہ ہر سوء سے امان ہے:
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱/۵۵۱) میں حدیث رقم (۳۷۲) کے تحت بیان کیا، نووی رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’سورۃ القریش پڑھنا مستحب ہے، الامام السید الجلیل ابو الحسن القزوینی الفقیہ الشافعی، واضح کرامات والے، شاندار احوال والے، واضح معارف والے نے بیان کیا: کہ وہ ہر سوء سے امان ہے۔‘‘
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے نووی رحمہ اللہ کے اس قول کا رد کرتے ہوئے کہا:
یہ بلا دلیل محض ایک دعوی کی بنیاد پر دین میں شریعت سازی ہے! انہیں کہاں سے پتہ چلا کہ وہ ہر سوء سے امان ہے؟ ! اسی طرح کی آراء جو کتاب میں وارد ہیں نہ سنت میں اس طرح شریعت کے تغیر و تبدل کا باعث ہیں کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلتا، یہ تو اللہ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہوا ہے، اور حذیفہ بن یمان سے اللہ راضی ہو جب انہوں نے فرمایا:
’’ہر عبادت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے نہیں کی تم بھی اسے نہ کرو۔‘‘
ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’اتباع کرو، ابتداع نہ کرو۔ تمہارے لیے کافی رہے گا، تم پر امر عتیق (پرانے امر یعنی قرآن و حدیث) کی اتباع لازم ہے۔‘‘
۳: تین دن سے کم مدت میں قرآن کی تلاوت مکمل کرنا خلاف سنت ہے: [1]
|