تنبیہ:… شیعی نے اس ترجمہ کی حدیث کو ’’مراجعات‘‘ میں نقل کیا اور (ص۱۷۹) پر بیان کیا:
’’امام بیہقی نے اسے اپنی ’’صحیح‘‘ میں اور امام احمد بن حنبل نے اپنی ’’مسند‘‘ میں روایت کیا، اور ابن ابی الحدید نے اسے ان دونوں سے، ان اخبار سے، جنہیں اس نے (ص۴۴۹) جلد دوم ’’شرح النھج‘‘ سے نقل کیا، روایت چہارم میں نقل کیا۔‘‘
میں نے کہا: یہ تخریج کذب ہے، اس کی کوئی اصل نہیں، ہر شخص جس کے پاس اس علم کی معرفت ہے وہ اس کی قطعیت کو پہنچ سکتا ہے، اگر وہ حدیث ’’مسند الامام احمد‘‘ میں تھی تو پھر الحافظ ہیثمی نے اسے ’’مجمع الزوائد‘‘ میں اور امام سیوطی نے ’’جامع الکبیر‘‘ اور ’’جامع الصغیر‘‘ میں کیوں نہ نقل کیا، اور نہ ہی ’’الزوائد علیہ‘‘ میں؟
اور تمہارے لیے تائید پیدا ہوتی ہے کہ بیہقی کی کتاب کا نام ’’الصحیح‘‘ نہیں۔ ان کی کتاب تو ’’السنن الکبری‘‘ اور ’’معرفۃ السنن والآثار‘‘ وغیرہ ہے، پس یہ بالکل واضح ہے کہ اس تخریج سے مقصود صرف یہ ہے کہ حدیث کو صحیح کر کے پیش کیا جائے۔
اور ابن ابو الحدیدمعتزلی غالی شیعہ ہے، جیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ’’البدایہ‘‘ (۱۳/۱۹۹) میں فرمایا، اس کی نقل قابل توثیق نہیں! خاص طور پر اس باب میں، جیسا کہ اس سے نقل کرنے والا بھی قابل توثیق نہیں، جیسا کہ ہم نے پہلے مثالیں بیان کیں!!
۳:… اہل علم نے جن احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے، جن سے وہ اپنی کتاب میں استدلال کرتا ہے اس کا انہیں عمداً چھپانا نہ کہ سہواً:
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ میں حدیث رقم (۴۸۹۱)[1] کے تحت فرمایا:
اس حدیث کو سیوطی نے ’’الجامع الکبیر‘‘ (۳/۶۱/۲) میں اکیلے دیلمی کی روایت سے ذکر کیا ہے!
اس شیعی نے اسے ’’المراجعات‘‘ (۱۷۲) میں اس کی طرف منسوب کیا ہے، اور اس کے متعلق حاکم کی تصحیح نقل کی ہے، اور ذہبی نے جو اس کے متعلق جرح کی ہے اسے نقل نہیں کیا، جیسا کہ اپنی شیعی احادیث کے بارے میں اس کی عادت ہے۔ جو اس کو صحیح قرار دیتا ہے تو وہ اس کا کلام نقل کر دیتا ہے اور جو اسے ضعیف قرار دیتا ہے تو وہ اس کا کلام نقل نہیں کرتا!
کیا جو مسلمانوں کی وحدت اور ان کو اکٹھا کرنا چاہتا ہے وہ اس طرح کیا کرتا ہے؟
وہ صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کرتا، بلکہ وہ اس کے ذریعے اس پر استدلال کرتا ہے:
’’کہ علی رسول اللہ کی طرف سے‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کے مقام و مرتبے پر ہیں۔……‘‘ وہ ظالم
|