اسی لیے اس نے اس حدیث میں اور مستدرک حاکم کی روایت، جس کا ابھی ذکر ہوا ہے، کے درمیان فرق کیا ہے، تا کہ وہ وہم پیدا کرے کہ وہ دو حدیثیں ہیں! جبکہ حقیقت میں وہ دونوں ایک حدیث ہیں۔ کیونکہ اس کا مدار عبداللہ بن اسعد پر ہے، معاملے کی غایت یہ ہے کہ راویوں نے اس میں اختلاف کیا ہے، پس بعض نے اسے ان کی مسند سے قرار دیا ہے اور بعض نے ان کے باپ کی مسند سے قرار دیا ہے! اس کے باوجود کہ اس کی طرف تمام طرق صحیح نہیں جیسا کہ آپ نے دیکھا، واللہ المستعان۔
اور ہمارے شیخ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱۰/۵۲۵۔ ۵۲۶) میں حدیث رقم (۴۸۹۴)[1] کے تحت فرمایا:
تنبیہ:… شیعی نے اس حدیث کو اپنی ’’مراجعات‘‘ (ص۱۷۵) میں حاکم کی روایت کے حوالے سے نقل کیا، اور کہا: ’’اور انہوں (امام حاکم) نے شیخین (امام بخاری، امام مسلم رحمہما اللہ ) کی شرط پر اسے صحیح قرار دیا۔ ‘‘
اس نے، جیسا کہ اس کی عادت ہے، اس پر امام ذہبی کا رد نقل نہیں کیا، اس نے وہ مباحثہ نقل کیا جو حاکم کی روایت کے حوالے سے ابن معین اور ابوازہر کے مابین ہوا، اور اس کے آخر میں ابن ازہر کا قول ہے:
پس انہوں (عبدالرزاق) نے –– اللہ کی قسم –– یہ حدیث لفظاً مجھے بیان کی۔ یحییٰ بن معین نے اس کی تصدیق کی اور ان سے معذرت کی!‘‘
میں جس پر تنبیہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ابن معین کی تصدیق سے صحت حدیث کی تصدیق مراد نہیں، جیسا کہ شیعی کا عمل وہم ڈالتا ہے، صرف ابو ازہر کی عبدالرزاق سے اسے روایت کرنے کی صحت کی تصدیق ہے، جو اس کی تائید کرتا ہے، خطیب کی ان الفاظ سے روایت مذکورہ:
’’پس یحییٰ بن معین مسکرائے اور کہا: رہے تم، تو تم کذاب نہیں ہو، اور انہوں نے اس کی تصحیح پر تعجب کیا، اور کہا: اس حدیث میں تمہارے علاوہ کسی اور کا گناہ ہے۔‘‘
میں نے کہا: میں نے جو کہا یہ اس کے متعلق دلیل ہے، اور وہ صریح ہے کہ ابن معین کے نزدیک حدیث صحیح نہیں۔
تو اگر وہ شیعی حقیقی عالم اور منصف ہوتا تو وہ الخطیب کی اس روایت کو نقل کرتا جس میں اس حدیث کے بارے میں ابن معین کا ذاتی موقف بالکل واضح ہے، اور اگر اس کے پاس جواب ہوتا تو وہ اس کا جواب دیتا! مگر یہ ناممکن ہے، ناممکن ہے۔
ہمارے شیخ نے مذکورہ مصدر (۵/۵۴۸۔۵۴۹) میں حدیث رقم (۴۹۰۳)[2] کے تحت فرمایا:
|