بھی خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہو۔‘‘ [1] جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (خواتین) کا نکلنا مشروع قرار دیا تو آپ نے اسلام کے شعار کے اظہار کے لیے نماز کو کھلے میدان میں پڑھنا مشروع قرار دیا۔‘‘
تو سنت نبویہ جو صحیح احادیث میں وارد ہے وہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز عیدین شہر کے باہر کھلی جگہ پر پڑھا کرتے تھے، ابتدائی دور میں اسی پر عمل ہوتا رہا ہے، وہ بارش وغیرہ کے علاوہ نماز عید مساجد میں نہیں پڑھا کرتے تھے، یہ چاروں اماموں اور ان کے علاوہ ائمہ اہل علم کا مذہب و مسلک ہے۔ رضوان اللہ علیہم۔ میں نہیں جانتا کہ کسی ایک نے اس میں مخالفت کی ہو۔ سوائے شافعی، اللہ ان پر راضی ہو، کا قول کہ انہوں نے مسجد میں نماز عید پڑھنے کو اختیار کیا جب کہ وہ مسجد اہل شہر کے لیے کافی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ وہ کھلے میدان میں عید نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے، خواہ مسجد ان (اہل شہر) کے لیے کافی ہو، آپ نے، اللہ ان پر راضی ہو، صراحت کی کہ وہ مسجد میں نماز عیدین پڑھنے کو ناپسند کرتے ہیں جبکہ وہ شہر والوں کے لیے کافی نہ ہو، تو یہ صحیح احادیث اور ان کے علاوہ احادیث، پھر ابتدائی دور میں اس پر مسلسل عمل، پھر علماء کے اقوال، یہ سب اس پر دلالت کرتے ہیں کہ اب مساجد میں نماز عیدین پڑھنا بدعت ہے، حتیٰ کہ شافعی کے قول کے مطابق بھی کیونکہ ہمارے شہروں میں ایسی کوئی مسجد نہیں جو اس شہر کے رہنے والوں کے لیے کافی ہو۔‘‘ شیخ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ کا کلام ختم ہوا۔
ب: نماز عیدین کے لیے اذان:
’’مختصر صحیح بخاری[2] (۱/۲۹۵) رقم (۴۹۲)، ’’الرد علی التعقیب الحثیث‘‘ (ص۴۹)، ’’صلاۃ التراویح‘‘ (ص۳۳،۴۴) اور حجۃ النبی صلي الله عليه وسلم (۱۰۱)[3]
ج: نماز (یعنی: نماز عید) سے پہلے خطبہ اور اس میں بیٹھنا خلاف سنت ہے:
’’الصحیحۃ‘‘ (۶/۱۱۴۴)‘‘
۴۔ سورج/ چاند گرہن کی نماز کی بدعات:
الف:… سورج گرہن کی نماز اور طواف وغیرہ کے لیے غسل کرنا:
’’الإبداع فی مضار الابتداع‘‘ (ص۲۲)، ’’الرد علی التعقیب الحثیث‘‘ (ص۵۰)۔
|