Maktaba Wahhabi

352 - 756
اور اسی طرح اس نے (ص۲۵) ذکر کیا کہ جب عمر کے دور میں قحط پڑا تو بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آئے، اور آپ کو اس طرح آواز دی: اللہ کے رسول! اپنی امت کے لیے بارش طلب کریں، کیونکہ وہ تو ہلاک ہو گئے! یہ قصہ بھی ثابت نہیں، مؤلف نے بعض ائمہ کے کلام کی تحریف کرتے ہوئے اس کی صحت کا وہم ڈالا ہے، اس نے یہ اپنے سے پہلے خواہش پرستوں کی تقلید کرتے ہوئے کیا ہے، اس کی تفصیل اس رسالے میں ہے جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’ریاض الصالحین‘‘ (ص۳۷) حدیث رقم (۱۲) پر تعلیقاً بیان کیا، وہ حدیث ان تین حضرات کے متعلق ہے جب وہ غار میں تھے تو چٹان گرنے سے اس غار کا منہ بند ہو گیا تھا[1]: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کرب و تکلیف کے وقت دعا کرنی چاہیے اور دعا کرنے والا اپنے عمل صالح کو وسیلہ بنا سکتا ہے، اس کی مثال: اللہ تعالیٰ کے اسماء اور اس کی صفات کو وسیلہ بنانا اور صالح شخص کی دعا کو وسیلہ بنانا۔ رہا انبیاء اور اولیاء کی ذات کو وسیلہ بنانا، تو اس کی کوئی اصل نہیں، بلکہ وہ توسل مشروع کے خلاف ہے، آگاہ رہو! بدعتی توسل کے منع کا سبب ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں ’’التوسل‘‘ (ص۱۶۴) پر السیوطی پر رد کرنے کے موقع پر بیان کیا: یہاں ہم سے رہ نہ جائے کہ ہم اسے اور اس کی امثال کو ذکر نہ کریں جن کو ہم نے اس رسالے کی خاص چیزوں میں بیان کیا، کہ وہ سبب جو ہمیں صالحین کی ہستیوں اور ان کے مقام و مرتبے کو وسیلہ بنانے سے روکتا ہے وہ اس کا تابناک شریعت میں وارد نہ ہونا ہے، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنایا نہ آپ کے اصحاب نے، اس لیے وہ نیا عمل اور بدعت ہے، اور وہ ان نصوص سے بھی وارد نہیں جن سے مخالفین دلیل لیتے ہیں، ان میں سے بعض ثابت ہیں، لیکن وہ ان کے دعوے پر دلالت نہیں کرتیں، جبکہ ان میں سے دوسرے بعض ثابت نہیں، اس کی تفصیل بیان ہو چکی ہے۔ یہ وہ سبب ہے جو ہمیں اس توسل کے انکار پر آمادہ کرتا ہے، اور ہم صراحت سے کہتے ہیں: اگر وہ شریعت میں وارد ہوتا تو ہم بھی اس کے متعلق کہتے، کسی مانع نے ہمیں اس سے منع نہ کیا، کیونکہ ہم تو شریعت کے ہاتھ کے قیدی ہیں، اس نے جسے جائز قرار دیا ہم نے اسے جائز قرار دیا، اور اس نے جس سے منع کیا ہم نے اس سے منع کیا،
Flag Counter